اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی کیس کے تفصیلی فیصلے میں حکومت کوشمال جنوبی پائپ لائن منصوبے پر کام 6 ماہ میں شروع کرنےکاحکم دیتے ہوئے کہا ٹاپی منصوبے پر پاکستانی سرحدتک پہنچتے ہی فوری کام شروع کیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی کیس کاتفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ، جسٹس فیصل عرب نے47 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ، جس میں جسٹس منصورعلی شاہ نے 31 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015 کا مقصد گیس کی درآمد کیلئے سہولت دیناتھا، جی آئی ڈی سی کے تحت نافذ لیوی آئین کے مطابق ہے۔
عدالت نے حکومت کو سیس بقایاجات وصولی تک مزیدسیس عائدکرنےسےروک دیا اور کہا 2020-21کیلئےگیس قیمت کا تعین کرتے وقت اوگراسیس کو مدنظر نہیں رکھ سکتا، کمپنیوں سے31 اگست 2020 تک کی واجب الادارقم24اقساط میں وصول کی جائے۔
عدالت نے حکومت کوشمال جنوبی پائپ لائن منصوبے پر کام 6 ماہ میں شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ٹاپی منصوبے پر پاکستانی سرحدتک پہنچتے ہی فوری کام شروع کیا جائے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سیاسی وجوہات پرپاک ایران،ٹاپی منصوبوں پرکام نہ ہوا تو جی آئی ڈی سی ایکٹ غیر فعال تصور ہوگا، رواں ماہ تک قابل وصول رقم 700 ارب تک پہنچ جائے گی، اب تک سیس کی مد میں 295 ارب روپے وصول کیے جا چکےہیں۔
اختلافی نوٹ
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ توانائی،صنعت، ٹرانسپورٹ، ٹیکنالوجی، زراعت انفرااسٹرکچر کے لیے ضروری ہے، ہر وہ قوم جس کی معیشت ابھر رہی ہو، طرز زندگی بہتر بنا رہے ہو وہاں توانائی کی فراہمی ضروری ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ابھی بھی قدرتی گیس کی قلت ہے، قدرتی گیس کی قلت،طلب کے درمیان خلا کو پر کرنے کی ضرورت ہے، اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق مقامی قدرتی گیس مجموعی توانائی سپلائی کا38 فیصد ہے۔
نوٹ میں کہنا تھا کہ پاکستان 4ارب کیوبک فٹ یومیہ گیس پیداکر رہاہے، 295ارب روپے 10سال میں جی آئی ڈی سی کی مد میں اکٹھے ہوئے، وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 6 ماہ میں قانون سازی کرے، حکومت قانون سازی نہ کرسکی تو جی آئی ڈی سی مد میں اکٹھے فنڈ کو واپس کرے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 295 ارب اکٹھے کیے گئے لیکن گیس پائپ لائن منصوبے کو بنانے کا کوئی نشان نہیں ملا، لگتا ہے حکومت گیس پائپ لائن کے منصوبوں کومکمل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، لگتا ہے قدرتی گیس کی قلت قطر سے درآمد ایل این جی سے پوری کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقننہ، انتظامیہ دونوں فنڈز استعمال کرنے سے متعلق عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے، اکثریتی فیصلے سے مکمل اختلاف کرتا ہوں کہ معاملے پر حکومت کا قصورنہیں، کیا حکومت اس ایکٹ کے معاملے کو قانون بنانے کے لیے پارلیمنٹ لے کر گئی؟ حکومت جی آئی ڈی سی معاملے پر سالانہ رپورٹ، تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کرنے میں ناکام رہی۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کو بر وقت پارلیمان میں لے جایا جاتا توآج نتائج مختلف ہوتے، پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا، حکومتی اقدامات کو جانچنا ہے، پارلیمنٹ کا کام پبلک سیکٹر میں حکومتی معاشی سرگرمیوں کا احتساب کرنا شامل ہے، پارلیمنٹ کا یہ کام بھی ہےکہ عوامی مسائل پربات کرے ،عوام پر خرچ پیسوں کی جانچ کرے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت میں پارلیمنٹ سےمعلومات چھپانابدترین عمل ہے اور حکومت پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے،2015 سے 2020 تک کسی معاشی سروے میں پاک ایران،ٹاپی منصوبوں کاذکرنہیں، معاشی سروےکےمطابق توانائی کاشارٹ فال ایل این جی کی درآمدسے پورا کیا گیا، حیران کن طور پر ایل این جی منصوبہ جی آئی ڈی سی کےتحت نہیں ہے۔
نوٹ کے مطابق پائپ لائن منصوبےمکمل ہونےکافی الحال کوئی نام و نشان نہیں، حکومت پائپ لائن منصوبےمکمل کرنہیں سکتی یاکرناہی نہیں چاہتی، قانون کے مطابق حکومت ہرسال منصوبوں پرپارلیمان کوبریفنگ کی پابندہے ، آج تک پارلیمان کےدونوں ایوانوں میں کوئی سالانہ رپورٹ پیش نہیں کی گئی،حکومت سیس کی مد میں وصول تمام رقوم واپس کرے اور رقوم کی واپسی کیلئےکمیٹی تشکیل دے۔