تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

سپریم کورٹ کا پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک جمع کرانے کا حکم

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 8 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک جمع کرانے کا حکم دیا اور سماعت تین ہفتوں تک کے لیے ملتوی کردی۔

سماعت میں اٹارنی جنرل منصور اعوان، پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری، ن لیگ کی جانب سے وکیل بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے اور ن لیگ کی جانب سے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے عدالت میں درخواست جمع کرائی گئی۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے جب کہ ن لیگ نے بھی فل کورٹ بنانے کے لیے عدالت کو درخواست دے دی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کرا دی ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا۔ اس کے لیے اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا گیا ہے۔

منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے اور عدلیہ آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے۔ قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے اور عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے، قانون میں جو معاملات طے کئےگئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیے تھے، سپریم کورٹ رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کرسکتی ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور رولز سے فیصلہ ومقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہوگا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔

اس موقع پر بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے رولز میں ترمیم کا نہیں، قانون سازی کے اختیار کے مقدمات مختلف بینچز معمول میں سنتے رہتے ہیں۔ اس موقع پر جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے اور کیا آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی ہوسکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 1992 تک رولز بنانے کے لیے صدر کی اجازت درکار تھی تاہم صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا لیکن رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی۔

منصور اعوان نے کہا کہ ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا اس لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

اس موقع پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کئی مقدمات اپنی نوعیت کے پہلے ہوتے ہیں اور سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟ رولز، آئین اور قانون کے تحت کیا حکومت چاہتی ہے عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے؟ ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے اور یہ یقین کیسے ہوگا کہ کونسا کیس فل کورٹ سنے؟ کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا عدلیہ کی آزادی کے مقدمات فل کورٹ نے نہیں سنے۔ افتخار چوہدری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے؟ جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس مختلف نوعیت کا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بظاہر یہ آپکا مقدمہ نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنایا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے، عدالت درخواست گزار کی خواہش پر کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ اپنے رولز بنا چکی ہے، رولز بنانے کا اختیار فل کورٹ کو انتظامی امور میں ہے، 3 رکنی بینچ کے سامنے رولز تشریح کا مقدمہ آئے تو کیا وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں قانونی سازی کا اختیار چیلنج ہے۔ جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کی منطق سمجھ سے باہر ہے کہ فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور تین رکنی بینچ کا برا ہوگا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپکی منطق یہ ہے کہ رولز فل کورٹ نے بنائے تو تشریح بھی وہی کرے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائے قانون میں دے دیا ہے، عدالتی اصلاحات بل کے مطابق 5 رکنی بینچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنے گا، اٹارنی جنرل کہتے ہیں فل کورٹ ہو، جب پارلیمنٹ پانچ ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل کیوں نہیں؟ یا تو آپ کہیں کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایا ہے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے قانون  پر عمل درآمد سے روک رکھا ہے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر حکم امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کہاں جاتی؟ لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزور پڑ گئی ہے کہ یہاں کتنےججز بیٹھے ہیں۔

ججز نے کہا کہ قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے۔ ہائیکورٹ بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنی جاتی ہیں، کیا ہائیکورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی ہے؟ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو ہائیکورٹس فل کورٹ بنانے کی پابند ہوں گی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صوبائی اسمبلی بھی اس نوعیت کا قانون بنا دے تو کیا پوری ہائیکورٹ مقدمہ سنے گی؟ کیا لاہور ہائیکورٹ میں 60 اور سندھ ہائیکورٹ میں 40 ججز سماعت کرینگے؟

اٹارنی جنرل  نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں اس پر بات نہیں کروں گا،

جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ آپ درخواست میں چیف جسٹس کو حکم دینے کی استدعا کر رہے ہیں۔ کیا بینچ چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی گزارش کر سکتے ہیں جس پر جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ ایسی استدعا پر عدالت کس قسم کا حکم دے سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں ایسی درخواست پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست میں استدعا اچھے الفاظ میں نہیں لیکن عدالت کو سمجھ آگئی۔

اٹارنی جنرل نے نقطہ اٹھایا کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی پھانسی کے مقدمے میں بینچ پر اعتراض کیا تھا، جج پر اعتراض ہوا اور 9 رکنی فل کورٹ نے مقدمہ سنا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراض ہو تو فیصلہ جج نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ مقدمہ سنے یا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل کے حوالے سے معروضات پیش کرچکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مستقبل کیلیے تعین کرنا ہے بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل کا کہہ سکتا ہے، عدالت کو اس حوالے سے مزید معاونت چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ صرف آئین کی تشریح کا نہیں ہے، آئینی ترامیم کیس میں عدالت نے فوجی عدالتیں درست قرار دی تھیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس آئینی ترامیم کا نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بیس سال بعد شاید زمینی حالات اور آئین مختلف ہو۔

اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ن لیگ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ حکم امتناع کے ذریعے پہلی بار قانون پر عملدرآمد روکا گیا ہے، فل کورٹ کیلیے بینچ درخواستیں معمول میں دی جاتی ہیں، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس میں بھی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جسٹس فائزعیسیٰ کیس کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا گیا تھا اور چیف جسٹس خود یہ کیس نہیں سن رہے تھے۔

ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ 7 رکنی بینچ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی، بعض اوقات بینچ خود بھی فل کورٹ تشکیل کیلئے فائل چیف جسٹس کو بھجواتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ افتخار چوہدری اور جسٹس فائز عیسیٰ کیسز صدارتی ریفرنس پر تھے، ججز پر الزام لگے تو ٹرائل سپریم کورٹ کا ہوتا ہے، معاملہ سنگین نوعیت کا ہونے پر ہی فل کورٹ بنا تھا، دونوں ججز کیخلاف ریفرنس سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیے، کسی اور مقدمے میں فل کورٹ کی مثال ہے تو دیں۔ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ آئی جی جیل خانہ جات کیس میں بھی فل کورٹ تشکیل دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد اٹارنی جنرل کو کل تک پارلیمانی کارروائی جمع کرانے کا حکم دیا اور سماعت آئندہ تین ہفتوں تک کے لیے ملتوی کردی۔

Comments

- Advertisement -