اسلام آباد: جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کو 6 ماہ کیلیے توسیع دے دی گئی جبکہ آئینی بینچ کی تشکیل برقرار رکھنے کا فیصلہ 7-6 کے تناسب سے ہوا۔
ذرائع نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس جمال مندوخیل نے سپریم کورٹ کے تمام ججز کو آئینی بنچ میں شامل کرنے کی تجویز دی، ووٹنگ میں 7 ممبران نے بنچ برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ دیا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ جوڈیشل کمیشن نے نئے رولز کے تحت ایڈیشنل ججز کیلیے نامزدگیاں 3 جنوری تک طلب کر لیں، نامزدگیاں متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ذریعے بھیجی جائیں گی۔
ایڈیشنل ججز کیلیے پہلے سے بھیجے گئے نام متفقہ طور پر واپس لے لیے گئے۔
آج سیکریٹری جوڈیشل کمیشن کو لکھے گئے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے ججوں کی تعیناتی میں انٹیلیجنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انٹیلیجنس ایجنسی کو کردار دیا گیا تو اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، جوڈیشل کمیشن میں پہلے ہی اکثریت ایگزیکٹو کی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق اپنی پوزیشن واضح کر چکا ہوں، پہلے فل کورٹ بنا کر 26ویں ترمیم کا جائزہ لینا چاہیے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ آئینی بنچ کیلیے ججوں کی تعیناتی اور تعداد کا مکینزم ہونا چاہیے، آئینی بنچ میں ججز کی شمولیت کا پیمانہ طے ہونا چاہیے، کس جج نے آئین کی تشریح والے کتنے فیصلے لکھے یہ ایک پیمانہ ہو سکتا ہے۔
خط میں معزز جج نے کہا کہ کمیشن بغیر پیمانہ طے کیے سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں آئینی بنچ تشکیل دے چکا ہے، رولز پر میری رائے اس ترمیم اور کمیشن کی آئینی حیثیت طے ہونے سے مشروط ہے، جج آئین کی حفاظت اور دفاع کرنے کا حلف لیتا ہے، ججز تعیناتی کے رولز بھی اسی حلف کے عکاس ہونے چاہئیں۔