اتوار, ستمبر 29, 2024
اشتہار

پی ٹی آئی سے ’بلا‘ چلا گیا، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان ’بلے‘ سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان نہیں ملے گا۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےکی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل تھیں، فیصلہ متفقہ طور پر سنایا گیا۔

- Advertisement -

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ میں درخواست ناقابل سماعت تھی، ایک وقت میں دو ہائیکورٹس میں کیس نہیں چل سکتا، پی ٹی آئی نے شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کے شواہد پیش نہیں کیے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملک جمہوریت نے دیا، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، سیاسی جماعتیں انٹرا پارٹی انتخابات کی پابند ہیں۔

سماعت کا احوال

چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ آپ کہتےہیں اسٹیبشلمنٹ کاالیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو ثابت کریں، اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اصل نام فوج ہے، اسٹیبشلمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالے گی؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت آئینی اداروں کوکنٹرول تو نہیں کرسکتی، آپ جب بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں توبتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے، یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی اورجماعت میں کوئی ایک کاغذا کا ٹکڑا پیش کر دے اور دوسرا کوئی اور تو فیصلہ کون کرے گا؟ تو وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ اس کافیصلہ سول کورٹ کرےگی، جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ سول کورٹ اس کا فیصلہ کیوں کرے گی۔

وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ کیوں کہ پارٹی ممبران کاآپس میں تنازع ہوگا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سول کورٹ کہےیہ میرا نہیں الیکشن کمیشن کا کام ہے، علی ظفر نے کہا کہ اِس معاملے میں الیکشن کمیشن کادائرہ کار نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہاں سے یہ بات کررہے ہیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا میں آپ کوقانون پڑھ کرسناتاہوں، الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے تو جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں ہے۔

چیف جسٹس کے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ یا آپ تسلیم کر لیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟یا تو کہ دیں کہ جمہوریت گھر میں نہیں چاہیے لیکن باہر چاہیے، آپ کو سیاست چاہئے جمہوریت نہیں چاہئے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے، ہمارےسامنےانتخابی نشان کیس نہیں پشاورہائیکورٹ فیصلہ دیکھ رہےہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نےانتخابی نشان واپس نہیں لیا، الیکشن کمیشن کاپہلےخط پڑھیں،انہوں نے کہا انٹراپارٹی الیکشن کرائیں، الیکشن کمیشن نے دھمکی بھی دی انٹرپارٹی الیکشن نہیں کرائیں گےتونشان لے لیں گے۔

جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ سوال یہ ہےکیا الیکشن نہ کر انےپرکیاالیکشن کمیشن پارٹی نشان واپس لےسکتاہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ لوگوں نےالیکشن کمیشن کےخط کوقبول کیاہے، انٹراپارٹی الیکشن ہوگئے توانتخابی نشان خودبخودمل جائےگا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ آپ کی حکومت تھی جب الیکشن کمیشن نےخط لکھاتھا، پی ٹی آئی نےاس وقت انٹرپارٹی الیکشن نہیں کرائے، پی ٹی آئی نےکوروناکی وجہ سےایک سال کی مہلت مانگی ،یہ نہیں کہاالیکشن کمیشن کون ہےنشان واپس لینے والا، الیکشن کمیشن نے بتایا 13جماعتوں کوانٹراپارٹی الیکشن نہ کرانےپرڈی لسٹ کرچکےہیں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے یا تو کہہ دیں کہ جمہوریت گھر میں نہیں چاہیے لیکن باہر چاہیے، الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن نے مانے نہیں۔

چیف جسٹس نےوکیل پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ 14درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں نہیں لڑنے دیا ، وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ کوئی پٹواری انٹراپارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں ہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو سیاست چاہئے جمہوریت نہیں چاہئے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، آپ کہتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ جرمانہ کر سکتا ہے لیکن ساتھ ہی آپ کہتے ہیں باقی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر 8 فروری کو آپ 326 ارکان کو بلا مقابلہ جتوادیں تو ایسے الیکشن کو میں نہیں مانوں گا، بلا مقابلہ ہے تو قانونی ہی لیکن عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے، یعنی پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ کھیلے بغیر سرٹیفکیٹ آگیا کہ پاکستان جیت گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کہتا ہے چیئرمین کا الیکشن 2 سال باقی 3 سال بعد ہونگے، یہاں تک تو پارٹی آئین کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے سرٹیفکیٹ اسی وقت مل سکتا ہے جب انتخابات پارٹی آئین کے مطابق ہوئے ہوں اور استفسار کیا کوئی پارٹی الیکشن کرائے بغیر سرٹیفکیٹ دیدے تو کیا الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکتا؟

وکیل علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ میں پارٹی انتخابات کی شفافیت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ،انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتاہے،جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی انتخابات کروا کر جرمانے کی اسٹیج سے تو آگے نکل چکی ہے۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں