پشاور: سانحہ سوات کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا۔
ترجمان وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ آپریشن میں ضلعی انتظامیہ، پولیس اور متعلقہ ادارے شریک ہیں، کسی کو بھی رعایت نہیں دی جائے گی، تجاوزات کے خلاف کارروائیوں کو جلد مکمل کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ دریائے سوات کے کنارے غیر قانونی مائننگ مکمل طور پر بند کی جا رہی ہے، تمام ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی بھی کی جائے گی، دریائے سوات کے اطراف بیریئرز کی تعمیر کا بھی آغاز کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سوات میں مافیا دریا سے بجری نکال کرموت کے کنویں بنارہا ہے، شہری
ان کا کہنا تھا کہ دریائے سوات کے بعد تجاوزات کے خلاف آپریشن کا دائرہ وسیع کیا جائے گا، سیاحتی مقامات کے حسن کو بحال اور محفوظ بنانے کیلیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، یہاں پر تجاوزات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
چند روز قبل دریائے سوات پورے خاندان سمیت 18 سیاحوں کو بہالے گیا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے منہ زور موجوں کے درمیان پھنسے بچے، عورتیں اور جوان جان بچانے کیلیے چٹان پر چڑھ کر مدد کا انتظار کرتے رہے اور خود ہی ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کرتے رہے لیکن بے رحم موجیں ایک ایک کر کے سب کو بہا لے گئیں۔
بچے سیلفی لینے آگے گئے تھے کہ اچانک سیلابی ریلا آگیا، حادثے کا شکار خاندان کے مطابق متاثرہ خاندان گھر سے ناران کاغان جانے کیلیے نکلا، راستے میں سوات جانے کا پروگرام بن گیا۔
صوبائی حکومت کی رپورٹ کے مطابق دریائے سوات کے مختلف مقامات پر مجموعی طو پر پچھتر افراد ریلے میں پھنسے اور اٹھاون افراد کو بحفاظت ریسکیو کیا گیا۔
گزشتہ روز واقعے کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم کرتے ہوئے غفلت اور ناقص کارکردگی پر 4 اعلیٰ افسران کو معطل کیا گیا، صوبائی حکومت نے واقعے کی تحقیقات کیلیے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی، گریڈ 21 کے خیام حسن خان کمیٹی کے چیئرمین مقرر کر دیے گئے۔
گریڈ 19 کا افسر محمد عثمان اور گریڈ 18 کے شہر یار قمر کمیٹی میں شامل ہیں، کمیٹی سیلاب کے واقعے کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے گی۔
کمیٹی حکومتی اہلکاروں یا اداروں کی غفلت و کوتاہی کی نشاندہی کرے گی جبکہ ڈیوٹی میں غفلت برتنے والے افراد اور اداروں کی شناخت بھی کمیٹی کرے گی۔ اس کے ساتھ آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کیلیے حفاظتی اقدامات کی سفارشات بھی پیش ہوں گی۔