سر سید احمد خان اپنے سیاسی، سماجی اور مذہبی نظریات اور تصورات کے سبب ایک متنازع شخصیت بھی تھے اور متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ترقی کے معمار اور ان کے بڑے خیرخواہ بھی۔ اس راستے میں ان کی کوششیں انقلابی اور دیرپا ثابت ہوئیں۔ لیکن انھیں غیروں کی نہیں اپنوں کی بھی مخالفت سہنا پڑی۔ یہ مخالفت بڑی بڑی شخصیات اور مسلمانوں کے سماجی اور مذہبی پلیٹ فارمز سے کی گئی۔ تاہم ایک بڑا طبقہ ان کا ہم نوا ہی نہیں مددگار بھی تھا اور اس کے نزدیک سر سید ذہن اور ذوق دونوں کے مفکر تھے۔ یہ مسلمان سرسید کی بصیرت اور ذہانت کے قائل رہے اور ان کے علمی و دینی کاموں میں خوب ہاتھ بٹایا۔
ہم آج انداہ نہیں کر سکتے کہ اپنے مشن اور مقصد کی تشکیل اور تکمیل کے لیے سر سید کو کن محاذوں پر کیسی کیسی لڑائیاں لڑنی پڑیں اور ان راستوں کو تلاش کیا جو منزل تک جلد جاتے ہوں یا دیر میں سہی مگر منزل تک پہنچا دیں۔ سر سید کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے لیکن وہ مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کے حصول کے سب سے بڑے داعی تھے۔ یہاں ہم مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی تاریخ بیان کرنے والے اور ایک بڑے محقق شیخ محمد اکرام کے ایک مضمون سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں جو اپنے وقت کی ایک بلند پایہ مگر متنازع شخصیت کے ایک روشن پہلو کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
اگر سر سید کی ’’اکل کھری‘‘ طبیعت کا اندازہ لگانا ہو تو ان کے خطوط کا مطالعہ کرنا چاہیے، جن میں نہایت بے تکلفی سے اور بعض اوقات بڑے کڑوے طریقے سے اس ’’نیم چڑھے وہابی‘‘ نے اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا ہے۔
ایک جگہ نواب وقار الملک کو لکھتے ہیں، ’’آپ کی عادت ہمیشہ بے فائدہ طول نویسی کی ہے۔‘‘ پھر انہیں کو کہتے ہیں، ’’میں اس بات کو ہرگز دل میں نہیں رکھنا چاہتا کہ بے شک آپ نے نہایت نامناسب طریقہ اختیار کیا۔ (چاہے) اس کا کوئی سبب ہو۔‘‘ نواب وقار الملک ہی کو لکھتے ہیں، ’’جن امور کو آپ تصور کرتے ہیں کہ قومی کالج کے لیے مبارک فال نہیں، ہم انہی امور کو قومی کالج کے لیے مبارک فال سمجھتے ہیں۔ پس اس کا کوئی علاج نہیں اور یہ یقین کرنا چاہیے کہ خدا کو جو منظور ہوگا، وہ ہوگا۔‘‘ ایک خط میں نواب محسن الملک کی نسبت لکھا ہے، ’’ان کا ایک خط میرے پاس بھی آیا ہے، جن میں لفظ ہیں مگر ان میں اثر نہیں۔‘‘
سرسید صرف خطوط ہی میں اپنے مافی الضمیر کا صاف صاف اظہار نہ کرتے بلکہ ان کا کلیہ قاعدہ تھا کہ جس طرف سے انہیں رنج پہنچتا وہ اس کے ساتھ ظاہر داری کا برتاؤ بھی نہ کرتے۔ حالی لکھتے ہیں، ’’جن یورپین افسروں نے ابتدا میں مدرسۃ العلوم کی مخالفت کی تھی یا اس کے لیے سرکاری زمین ملنے میں مزاحم ہوئے تھے، سرسید نے ان سے پرائیویٹ طور پر ملنا ترک کر دیا تھا اور کبھی ان کے ساتھ ظاہر داری کا برتاؤ نہیں کیا۔‘‘ یہی طریق کار ان کا اپنے ہندوستانی دوستوں سے تھا۔ ان کے تین بے تکلف دوستوں نے ٹرسٹی بل کے موقع پر نہ صرف سرسید سے اختلاف کیا بلکہ ایک مخالف پارٹی بنائی، جس کی طرف سے سر سید اور ان کے طریق کار پر ناگوار ذاتی حملے ہوئے۔ ان میں سے ایک کی نسبت سرسید لکھتے ہیں، ’’جب وہ مجھ سے ملنے آئے تو میں نے ان سے کہا کہ خاں صاحب! میری عادت کسی سے منافقانہ ملنے کی نہیں۔ آپ رئیس ہیں جب کہیں ملاقات ہوگی میں آپ کی تعظیم کروں گا۔ آپ ممبر کمیٹی کے ہیں۔ جب اجلاس میں آپ تشریف لاویں گے آپ کا ادب کروں گا لیکن آپ سے دوستانہ جو ملاقات تھی، وہ راہ و رسم میں رکھنی نہیں چاہتا۔‘‘
اسلام اور بانیِ اسلام کی محبت، انتہائی راست بازی اور صاف گوئی کے علاوہ سرسید کی دوسری قابل ذکر خصوصیت مذہبی حمیت ہے۔ ان کے بعض عقائد اور خیالات سے اختلاف کرنا آسان ہے، لیکن انہیں مذہب اسلام اور بانیِ اسلام سے جو محبت تھی اس کا اعتراف نہ کرنا بھی بے انصافی ہے۔ سرسید کی مذہبی تصانیف کا ہم آئندہ اوراق میں ذکر کریں گے۔ عقائد و تفسیر کے کئی مسئلوں میں انہوں نے جس طرح علماء سے اختلاف کیا وہ سب پر روشن ہے، لیکن ارکان اسلام میں سرسید کا جو حال تھا اور افسروں کے ساتھ وہ جس طرح کا برتاؤ چاہتے تھے اس کا اندازہ ان کے ایک خط سے ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں نواب وقار الملک کا کسی ایسے افسر کے ساتھ سابقہ پڑا جو کچہری کے اوقات میں نماز پڑھنے سے تعارض کرتا تھا۔ سر سید کو بھی اس کی اطلاع ملی۔ انہیں ایک خط میں لکھتے ہیں، ’’نماز جو خدا کا فرض ہے اس کو ہم اپنی شامتِ اعمال سے جس طرح خرابی سے ہو ادا کریں یا قضا کریں۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ تم نماز نہ پڑھو، اس کا صبر ایک لمحہ کے لیے نہیں ہو سکتا۔ یہ بات سنی بھی نہیں جا سکتی۔ میری سمجھ میں نماز نہ پڑھنا صرف گناہ ہے جس کے بخشے جانے کی توقع ہے اور کسی شخص کے منع کرنے سے نہ پڑھنا یا سستی میں ڈالنا میری سمجھ میں کفر ہے جو کبھی بخشا نہ جائے گا۔ تم کو یا تو پہلے ہی خود اپنی شامتِ اعمال سے ایسا طریقہ اختیار کرنا تھا جو کبھی اس قسم کی بحث نہ آتی اور جب ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا تھا تو پھر لجلجانا اور گڑگڑانا اور ’’حضور رخصت ہی دیں۔ تنخواہ کاٹ لیں‘‘ کہنا واہیات تھا، تڑاق سے استعفی دے دینا تھا اور صاف کہہ دینا تھا کہ میں اپنے خدائے عظیم الشان قادرِ مطلق کے حکم کی اطاعت کروں گا نہ آپ کی۔ کیا ہوتا؟ نوکری نہ میسر ہوتی۔ فاقے سے مر جاتے۔ نہایت اچھا ہوتا۔ والسلام۔‘‘