جمعرات, اپریل 24, 2025
اشتہار

ناگوار باتوں کو ناگوار ترین پیرائے میں بیان کرنا!

اشتہار

حیرت انگیز

پطرس بخاری اردو ادب میں بطور مزاح نگار بہت مقبول رہے ہیں، لیکن وہ ایک ادیب ہی نہیں براڈ کاسٹر، ماہرِ تعلیم اور سفارت کار بھی تھے۔ پطرس نے اپنے مزاحیہ مضامین میں جہاں ہندوستان کے کلچر اور اپنے رسم و رواج کو موضوع بنایا ہے، وہیں سماجی اقدار اور بعض روایتی تصّورات کو بھی شگفتہ پیرائے میں بیان کیا ہے۔

عورتوں سے متعلق پطرس کے ایک مضمون سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔ وہ لکھتے ہیں:

میرے ایک دوست کا مشاہدہ ہے کہ عورتوں کی باہمی گفتگو یا خط و کتابت میں موت یا بیماری کی خبروں کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے واقعات کے بیان کرنے میں عورتیں غیر معمولی تفصیل اور رقّت انگیزی سے کام لیتی ہیں۔

گویا ناگوار باتوں کو ناگوار ترین پیرائے میں بیان کرنا ان کا نہایت پسندیدہ شغل ہے۔ ان سے وہ کبھی سیر نہیں ہوتیں۔ ایک ہی موت کی خبر کے لیے اپنی شناساؤں میں سے زیادہ سے زیادہ سامعین کی تعداد ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتی ہیں۔ ایسی خبر جب بھی نئے سرے سے سنانا شروع کرتی ہیں، ایک نہ ایک تفصیل کا اضافہ کر دیتی ہیں اور ہر بار نئے سرے سے آنسو بہاتی ہیں اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ موت یا بیماری کسی قریبی عزیز کی ہو۔ کوئی پڑوسی ہو، ملازم ہو، ملازم کے ننھیال یا سہیلی کے سسرال کا واقعہ ہو، گلی میں روزمرّہ آنے والے کسی خوانچہ والے کا بچہ بیمار ہو، کوئی اُڑتی اُڑتی خبر ہو، کوئی افواہ ہو۔ غرض یہ کہ اس ہم دردی کا حلقہ بہت وسیع ہے: ”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے“

نہ صرف یہ بلکہ رقّت انگیز کہانیوں کے پڑھنے کا شوق عورتوں ہی کو بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس بارے میں سب ہی اقوام کا ایک ہی سا حال ہے۔ غیر ممالک میں بھی رلانے والی کہانیاں ہمیشہ نچلے طبقہ کی عورتوں میں بہت مقبول ہوتی ہیں۔ گھٹیا درجے کے غم نگار مصنفین کو اپنی کتابوں کی قیمت اکثر عورتوں کی جیب سے وصول ہوتی ہے۔

وہ بھی عورتوں کی فطرت کو سمجھتے ہیں۔ کہانی کیسی ہی ہو اگر اس کا ہر صفحہ غم و الم کی ایک تصویر ہے تو اس کی اشاعت یقینی ہے اور عورتوں کی آنکھوں سے آنسو نکلوانے کے لیے ایسے مصنفین طرح طرح کی ترکیبیں کرتے ہیں۔

کبھی ایک پھول سے بچے کو سات آٹھ سال کی عمر میں ہی مار دیتے ہیں اور بسترِ مرگ پر توتلی باتیں کرواتے ہیں۔ کبھی کسی یتیم کو رات کے بارہ بجے سردی کے موسم میں کسی چوک پر بھوکا اور ننگا کھڑا کر دیتے ہیں۔ اور بھی رقّت دلانی ہو تو اسے سید بنا دیتے ہیں۔ یہ کافی نہ ہو تو اسے بھیک مانگتا ہوا دکھا دیتے ہیں کہ ”میری بوڑھی ماں مر رہی ہے۔ دوا کے لیے پیسے نہیں۔ خدا کے نام کا کچھ دیتے جاؤ۔

کبھی کسی سگھڑ خوب صورت نیک طینت لڑکی کو چڑیل سی ساس کے حوالے کرا دیا۔ یا کسی بدقماش خاوند کے سپرد کر دیا۔ اور کچھ بس نہ چلا تو سوتیلی ماں کی گود میں ڈال دیا اور وہاں دل کی بھڑاس نکال لی۔ پڑھنے والی ہیں کہ زار و قطار رو رہی ہیں اور بار بار پڑھتی ہیں اور بار بار روتی ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں