ہفتہ, جولائی 27, 2024
اشتہار

سیّد عطا اللہ شاہ بخاری، قرآنِ حکیم اور دیوانِ غالب

اشتہار

حیرت انگیز

یہ تذکرہ ہے سیّد عطا اللہ شاہ بخاری کا جنھیں متحدہ ہندوستان میں ان کی دینی خدمات اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ شعر و ادب سے گہرے لگاؤ کی وجہ سے بھی پہچانا گیا۔

عطا اللہ شاہ بخاری شعر شناس بھی تھے اور شاعر بھی جب کہ قدرت نے خطابت کا بے پناہ ملکہ بھی ودیعت کر رکھا تھا اور لوگ ان کی تقریر سننے کے لئے دور دراز سے چلے آتے تھے۔ اردو اور فارسی پر عبور حاصل تھا اور ان زبانوں میں ہزاروں اشعار ازبر تھے۔ وہ خود بھی شاعر تھے اور زیادہ تر شاعری فارسی میں کی۔ یہاں ہم عطا اللہ شاہ بخاری کے ذوقِ‌ ادب سے متعلق مستند کتابوں‌ سے چند اقتباسات نقل کررہے ہیں۔

شورش کاشمیری لکھتے ہیں: ’’وہ (اپنی)‌ نانی اماں کی زبان دانی سے فیض پانے پر فخر کرتے اور شاد عظیم آبادی سے اپنی ہم صحبتی و ہم سخنی کے واقعات بڑے کرّو فخر سے بیان کرتے، جہاں تک اردو زبان سے آشنائی کا تعلق تھا وہ کسی بھی اہلِ زبان سے اپنے تئیں کم نہ سمجھتے تھے۔ اپنی زبان کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا…. اور یہ غلط نہ تھا۔‘‘

- Advertisement -

شاہ جی کی سخن فہمی کے بارے میں ماہر القادری جن کا شمار اپنے دور کے معروف شعراء میں ہوتا ہے، لکھتے ہیں: ’’داد دینے کا انداز والہانہ تھا۔ میں نے زندگی میں بہت کم لوگوں کو اتنی صحیح اور معقول داد دیتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

احمد ندیم قاسمی، صوفی تبسم، احسان دانش، حفیظ جالندھری، ماہر القادری، تاثیر، سالک، فیض، ساحر لدھیانوی، جگر مراد آبادی، عدم وغیرہم کو آپ کی ہم نشینی و بزم آرائی کا موقع ملا۔

اقبال، غالب اور حافظ کو خوب ڈوب کر پڑھا تھا۔ ان کے کلام کے حوالے سے بڑا جامع تبصرہ فرماتے اور وقیع الفاظ میں ان شعراء کو خراجِ تحسین پیش کرتے اور ان شعراء کے اشعار بھی نوکِ زبان تھے جنھیں برجستہ و برمحل برت کر داد پاتے۔ مرزا غالب کے کئی اشعار ازبر تھے۔

عبدالمجید سالک کے بیٹے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے اپنی کتاب ‘‘وے صورتیں الٰہی‘‘ میں عطا اللہ شاہ بخاری سے ملاقات کا ذکر یوں‌ کیا ہے: اس کے بعد (شاہ جیؒ) ہمیں قیام گاہ پر لے گئے وہاں خوب محفل جمی، باتوں باتوں میں فرمایا ’’دو کتابیں ہمیشہ میرے پاس رہتی ہیں۔ قرآنِ حکیم اور دیوانِ غالب لیکن اوپر قرآنِ حکیم رہتا ہے اور نیچے دیوانِ غالب۔‘‘

میں بے ساختہ پکار اٹھا، ہاں…. مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے!

وہ ہنس پڑے کہنے لگے، کیسے چھپے رہتے، آخر ابنِ سالک ہو۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں