جمعہ, نومبر 15, 2024
اشتہار

محی الدین قادری زورؔ: ماہرِ لسانیات اور اردو زبان و ادب کے ممتاز محقق

اشتہار

حیرت انگیز

دکن میں اردو زبان و ادب کے گیسو سنوارنے اور اسے فروغ دینے میں جن اہلِ‌ قلم نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ بہت محنت و کاوش کی، ان میں ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر زورؔ نے اصولِ تنقید متعارف کرایا اور اسی لیے وہ لسانیات اور تنقید کے اوّلین علمبرداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

حیدرآباد دکن کے اس صاحب طرز ادیب، ماہر لسانیات، محقق و نقاد ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ علم و ادب کی خدمت میں گزارا۔ اردو کے لیے جو انھوں نے کام کیا اسے دنیائے ادب کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔

محی الدین قادری زور کو اپنی مٹی اور تہذیب و تمدن سے خاص لگاؤ تھا۔ ان کی تصنیفات کے بیشتر حصے دکن کی قدیم یادگاروں، دکن کی زبان، حیدرآبادی ثقافتوں اور روایتوں، ریاست اور نظام کے تذکروں سے معمور ہیں۔ وہ 25 دسمبر 1905ء کو حیدر آباد، دکن میں پیدا ہوئے۔ ابتدئی تعلیم مدرسہ دارالعلوم سٹی اسکول میں ہوئی۔ 1927ء میں عثمانیہ کالج سے ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ ان کی ذہانت اور ادبی لگاؤ کو دیکھتے ہوئے فرمانروائے دکن کی جانب سے وظیفہ دیا گیا اور 1929ء میں زور صاحب لندن یونیورسٹی پی ایچ ڈی کرنے روانہ ہوئے۔ انھوں نے آریائی زبانوں پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ 1930ء میں فرانس میں لسانی تحقیق پر خصوصی تعلیم حاصل کی اور ہندوستاں لوٹے جہاں چندر گھاٹ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو کے صدر مقرر ہوئے اور اپنی وفات تک کشمیر کی سری نگر یونیورسٹی میں اردو اور فارسی مطالعات کے شعبے میں خدمات انجام دیتے رہے۔ سید محی الدین قادری زور کا انتقال وہیں 25 ستمبر 1962ء کو ہوا تھا۔

- Advertisement -

ڈاکٹر زور نے کئی کتابیں لکھیں اور خاص طور پر علمی و ادبی تحقیق میں ان کا کام یادگار ہے۔ ہندوستانی لسانیات، اردو کے اسالیب بیان، ہندوستانی صوتیات، داستان حیدرآباد، متاع سخن، بادہ سخن، سیر گولکنڈہ، گولکنڈہ کے ہیرے، حیات محمد قلی قطب شاہ، کلیات محمد قلی قطب شاہ وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ ان کے علاوہ محی الدین قادری زور نے قدیم ہزاروں مخطوطات کا اشاریہ اور اس پر تذکرے لکھے جو پانچ جلدوں میں شائع ہوا۔ محی الدین قادری زورؔ ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ’’میں نے اسکول کے زمانے سے ہی شاعری شروع کر دی تھی جو کالج کے زمانے میں بھی جاری رہی۔ اس وقت حیدرآباد شعر و سخن کا مرکز تھا۔ حیدرآباد کے گلی کوچوں میں شعر و سخن کا چرچا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر شخص شاعر بن سکتا ہے لیکن ادیب، نقاد اور محقق بننا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہ تھی۔ ہمارے کالج کے استاد وحید الدین سلیم ہمیشہ اردو کی جدید ضرورتوں کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے اس لیے میں نے بھی عام راستے سے ہٹ کر نئے نئے کام کرنے اور اپنی مادر جامعہ کا نام روشن کرنے کی خاطر شاعری کی جگہ نثر اور اس میں بھی تحقیق و تنقید کی طرف خاص توجہ کی۔‘‘

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں