بدھ, جون 25, 2025
اشتہار

سید محمد تقی: ایک عالی دماغ کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

سیّد محمد تقی کو پاکستان میں ایک فلسفی، دانش ور اور صحافی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جن کی متعدد تصانیف آج بھی بالخصوص فلسفہ کے مضمون میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے فکری راہ نمائی کا ذریعہ اور تعلیمی اعتبار سے بہت کارآمد ہیں۔

فلسفہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی عقل کے ارتقا کی تاریخ ہے۔ فلسفہ کو ’’اُمّ العلوم‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو کہ آج کے دور میں بھی مروجہ علوم کا ماخذ ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے مدارس اور جامعات کی سطح پر فلسفہ کی وہ اہمیت نہیں جو دیگر علوم اور فنون کو دی جاتی ہے۔ تعلیمی اعتبار سے ایک بڑا مسئلہ فلسفہ سے متعلق اردو میں مستند اور جامع کتابوں کی عدم دست یابی بھی ہے۔

سیّد محمد تقی کو پاکستان ہی نہیں‌ عالمی سطح پر ایک مفکّر اور فلسفی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 25 جون 1999ء کو وفات پاگئے تھے۔ سیّد محمد تقی کے فلسفہ کے مختلف موضوعات پر لیکچرز اور اردو میں تحریر کردہ کتابوں کا ہماری فکر اور نظریۂ حیات کو ایک سمت دینے اور طلبہ کی تربیت کرنے اہم کردار ہے۔

2 مئی 1917ء کو ہندوستان کے مردم خیز خطّے امروہہ میں جنم لینے والے سیّد محمد تقی کا خاندان علم و دانش، فکر و فن کے لیے مشہور ہے۔ ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا ایک وسیعُ العلم اور صاحبِ مطالعہ شخص تھے جو اپنے گھر میں علمی و ادبی مجالس کا اہتمام کرتے جس میں اس وقت کی عالم فاضل شخصیات شریک ہوتی تھیں۔ اسی ماحول نے سیّد محمد تقی کو فکری اور نظریاتی بنیاد پر توانا اور تاب دار کیا۔ وہ نام ور صحافی، ادیب اور شاعر رئیس امروہوی اور اردو کے مقبول ترین شاعر جون ایلیا کے بھائی تھے۔

سیّد محمد تقی نے بھی اپنے والد اور خاندان کی دیگر شخصیات کی طرح علم و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنایا اور صحافت بھی کی۔ سید محمد تقی ایک بیدار مغز، متجسس انسان تھے جن کی قدیم و جدید علوم میں گہری دل چسپی شروع ہی سے تھی۔ بعد میں‌ جب انھوں نے اپنے علمی ذوق و شوق اور تحقیق و جستجو کو قلم کی نوک پر لیا تو کئی ایسی تصانیف سامنے آئیں جنھیں آج بھی سراہا جاتا ہے۔ سیّد محمد تقی کی ایک مشہور تصنیف “تاریخ اور کائنات، میرا نظریہ” ہے جس میں انھوں نے اپنی فلسفیانہ اور دانش ورانہ سوچ سے ایک جامع اور مربوط نظام کو بیان کرنے کی کوشش ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں پراسرار کائنات، منطق، فلسفہ اور تاریخ، نہج البلاغہ کا تصور الوہیت اور روح اور فلسفہ شامل ہیں۔ کارل مارکس کی مشہور تصنیف داس کیپٹل کو سید محمد تقی نے اردو میں منتقل کیا تھا۔

کربلا تہذیب کا مستقبل، پاکستانی فلسفی اور دانش ور سید محمد تقی کی آخری کتاب ہے، لیکن اس کا مسودہ گم ہوگیا تھا اور کئی برس بعد جب یہ مسوّدہ ملا تو اسے بھی کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

پاکستانی دانش ور، فلسفی اور صحافی سید محمد تقی سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں