تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

1940ء: جب چار لڑکوں نے زمین پر ایک حیرت انگیز مقام دریافت کیا

آئیے قدیم حجری درو کے گمنام فن کاروں کے ایک زمین دوز نگار خانے کی سیر کریں۔ یہ نگار خانہ لاسکا (Lascaux) کے غار میں ہے۔

اب تک جتنے غار دریافت ہوئے ہیں لاسکا کا غار ان سب میں ممتاز ہے۔ اس کی رنگین تصویروں پر موسمی تغیرات کا بہت کم اثر پڑا ہے۔ یہ تصویریں ابھی تک اپنی اصلی حالت پر ہیں اور ان کے رنگ کی آب و تاب میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ لاسکا کا غار دریائے ویزیر کے شمالی ساحل پر ایک گھنے جنگل کے اندر واقع ہے۔ وہاں کوئی آبادی نہیں ہے البتہ ندی کے دوسرے کنارے پر ایک چھوٹا سا فرانسیسی گاؤں ہے۔ التمیرا کی مانند یہ غار بھی اتفاقیہ طور پر دریافت ہوا اور وہ بھی 1940ء میں۔

ہوا یوں کہ نواحی مدرسے کے چار لڑکے جنگل میں کھیل رہے تھے۔ ان کا کتّا ایک گڑھے میں جو کافی گہرا تھا، گر پڑا۔ لڑکے کتّے کو نکالنے گئے تو انہیں غار کا دہانہ نظر آیا۔

تلاش و جستجو کی یہ عمر انہیں غار میں لے گئی مگر دہانہ اتنا تنگ تھا کہ لڑکوں کو پیٹ کے بل رینگنا پڑا۔ ملبے کے ڈھیر سے رینگتے ہوئے وہ داخل ہوئے تو داہنی جانب بیس فٹ کی گہرائی پر انہیں ایک بڑا سا ہال ملا جو بیضوی شکل کا تھا۔ سو فٹ لمبا، 33 فٹ چوڑا اور بیس فٹ اونچا۔ اس ہال کی چھت اور دیواریں بیلوں، گھوڑوں اور ہرنوں کی بڑی بڑی رنگین تصویروں سے آراستہ تھیں۔

لڑکوں نے یہ ماجرا اپنے استاد موسیو لاوالؔ سے بیان کیا، انہوں نے ایبے بروئیلؔ کو خبر دی۔ ایبے بروئیل ؔنے غار کا معائنہ کیا۔ اسے آری ناسی دور کا شاہکار قرار دیا اور اس طرح مہذّب دنیا کو چالیس ہزار برس پرانا ایک نایاب دفینہ ہاتھ آیا۔

لاسکا کے ہال میں داخل ہوتے ہوئے پہلی تصویر ایک سیاہ گھوڑے کی نظر آتی ہے۔ اس کے بعد ایک عجیب و غریب جانور بنا ہے جس کے دو متوازی سینگ آگے کو نکلے ہوئے ہیں۔ پیٹ پھولا ہے اور جسم پر گول گول نشان ہے۔ پھر چند بہت بڑے بڑے بیل ہیں جن میں سے چار اب تک محفوظ ہیں۔ ان کی لمبائی چار تا چھے گز ہے۔ وہ بیل جن کے خاکے سیاہ لکیروں سے بنے ہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں اور ان کے درمیان خالی جگہ میں پانچ سرخ، زرد رنگ کے ہرن بنے ہیں۔

پہلے بیل کے اوپر لال رنگ کا ایک بڑا سا گھوڑا دوڑ رہا ہے۔ اس کے کھر اور ایال کالے ہیں۔ دوسرے بیل کے عقبی حصے میں لال رنگ کی ایک گائے بھی ہے جو چر رہی ہے۔ بیلوں کے درمیان بالائی حصے میں ایک اور لال گھوڑا ہے جس کی تھوتھنی دوسرے بیل کے سینگوں کے اندر ہے البتہ اس کے پاؤں غائب ہیں۔ بظاہر یہ چند جانوروں کی تصویریں ہیں مگر غور سے دیکھا جائے تو ان کی ایمائیت واضح ہو جاتی ہے اور ان میں ترتیب و آہنگ بھی نظر آنے لگتا ہے۔

غار کے دوسرے گوشے میں پتھر پر کندہ کاری کے بہ کثرت نشان ملیں گے۔ یہ تصویریں ایک کے اوپر ایک کھدی ہیں، شاید یہ جگہ نوآموز فن کاروں کی مشق کے لیے تھی۔ یہاں کسی جگہ فقط کھر بنے ہیں، کہیں دُم، کہیں سَر، کہیں کوہان مگر ان میں بڑی صفائی اور روانی پائی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا یہ خاکے ہاتھ کی ایک ہی جنبش سے بنے ہیں۔ ایک اور گوشے میں پتوں والی ایک بیل کندہ ہے۔ یہ واحد شجری نمونہ ہے جو حجری دور کے کسی غار میں ملا ہے۔

مگر لاسکا کا سب سے حیرت خیز منظر وہ ہے جو غار کے سب سے پوشیدہ، تاریک اور مشکل مقام پر بنایا گیا ہے۔ دراصل یہ بیس فٹ گہرا ایک کنواں ہے۔ کنوئیں کے ایک طرف کی دیوار کو کاٹ کر اس میں سیڑھیاں نکالی گئی ہیں۔ کنوئیں میں اترنے کا راستہ شاید یہی تھا۔

یوں تو قدیمی حجری دور کا ہر مصوّر غار دیدنی ہے لیکن فنی اعتبار سے چھ غار خاص طور پر ذکر کے قابل ہیں۔ اول التمیرا کا غار، جو سب سے پہلے دریافت ہوا اور سب سے مشہور ہے۔ دوّم فونت واگام، سوم تین بھائیوں کا غار، چہارم لاسیل، پنجم لے کومبریل اور ششم لاسکا۔

(سید سبط حسن کے مضمون سے انتخاب)

Comments

- Advertisement -