شامی باغیوں کے غلبہ پانے کے بعد بشار الاسد اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہوئے شام پر اسد خاندان کے 50 سالہ اقتدار کے خاتمے پر دنیا بھر سے ردعمل سامنے آیا ہے۔
شام میں اسد خاندان کا اقتدار 50 سال پر محیط ہے۔ تاہم 50 سالہ اقتدار کا سورج کل اس وقت غروب ہو گیا جب مسلح باغی گروپ پیش قدمی اور کئی شہروں پر قابض ہونے کے بعد دارالحکومت دمشق پر بھی قابض ہوگئے جس کے بعد بشار الاسد طیارے میں بیٹھ کر ملک سے فرار اور اب روس میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں۔
شام میں بشاور الاسد حکومت کے خاتمے پر اقوام متحدہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے ردعمل سامنے آیا ہے۔
اقوام متحدہ:
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے شام گیئر پیڈرسن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ شام کی تاریخ میں ایک اہم لمحہ ہے – ایک ایسی قوم جس نے تقریباً 14 سال کے انتھک مصائب اور ناقابل بیان نقصان کو برداشت کیا ہے۔ اس سیاہ باب نے گہرے داغ چھوڑے ہیں، لیکن آج ہم محتاط امید کے ساتھ ایک نئے آغاز کے منتظر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال شامیوں کی واضح خواہش کی نشاندہی کرتی ہے کہ مستحکم اور جامع عبوری انتظامات کیے جائیں۔ تمام شامی بات چیت، اتحاد اور بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے احترام کو ترجیح دیں۔ ہم ایک مستحکم اور جامع مستقبل کی جانب سفر میں شامی عوام کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایڈ چیف ٹام فلیچر نے کہا کہ شام میں واقعات قابل ذکر رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک دہائی سے زیادہ کے تنازع نے لاکھوں افراد کو بے گھر کیا ہے۔ اب بہت سے لوگ خطرے میں ہیں۔ ہم ضرورت مند لوگوں کی مدد کے لیے تیار ہیں۔
امریکا:
وائٹ ہاؤس سے اس حوالے سے بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ، صدر بائیڈن اور ان کی ٹیم شام میں ہونے والے غیر معمولی واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بشار الاسد اپنے ملک سے فرار ہو گیا۔ اس کا محافظ ولادیمیر پیوٹن کی قیادت میں روس تھا۔ روس اور ایران اس وقت کمزور حالت میں ہیں اور اب وہ اس کی (بشار الاسد) کی حفاظت میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
امریکی پینٹاگون کے آفیشل ڈینیئل شاپیرو نے کہا ہے کہ امریکا مشرقی شام میں اپنی موجودگی کو جاری رکھے گا اور دولت اسلامیہ کے دوبارہ سر اٹھانے سے روکنے کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔
شاپیرو نے مشرق وسطیٰ کے لیے نائب معاون وزیر دفاع بھی ہیں نے بحرین میں مناما ڈائیلاگ سیکیورٹی کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے تمام فریقوں سے شہریوں، خاص طور پر اقلیتوں کے تحفظ اور بین الاقوامی اصولوں کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا۔
یورپی یونین:
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے کہا ہے کہ ظالم اسد کی آمریت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ خطے میں یہ تاریخی تبدیلی مواقع فراہم کرتی ہے لیکن خطرات سے خالی نہیں ہے۔ یورپ قومی اتحاد کے تحفظ اور تمام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے والی شامی ریاست کی تعمیر نو میں مدد کے لیے تیار ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کجا کالس نے کہا کہ اسد کی آمریت کا خاتمہ ایک مثبت اور طویل انتظار کی پیشرفت ہے۔ یہ اسد کے حامیوں، روس اور ایران کی کمزوری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
ہماری ترجیح خطے میں سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ ہم شام اور خطے میں تمام تعمیری شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
یورپی پارلیمنٹ کی صدر رابرٹا میٹسولا نے کہا ہے کہ ڈکٹیٹر گر چکا ہے اور شام میں بشار الاسد کی 24 سالہ ظالمانہ حکومت ختم ہوچکی ہے۔ یہ خطے اور ان لاکھوں شامیوں کے لیے ایک نازک دور ہے جو ایک آزاد، مستحکم اور محفوظ مستقبل چاہتے ہیں۔ اگلے گھنٹوں اور دنوں میں کیا ہوتا ہے اہمیت رکھتا ہے۔”
برطانیہ:
وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے کہا کہ شام کے عوام نے طویل عرصے سے اسد کی وحشیانہ حکومت کے تحت مشکلات کا سامنا کیا ہے اور ہم ان کی رخصتی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اب ہماری توجہ اب اس بات کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے کہ ایک سیاسی حل تلاش کر کے امن و استحکام بحال کیا جائے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم تمام فریقوں سے شہریوں اور اقلیتوں کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ضروری امداد آنے والے گھنٹوں اور دنوں میں سب سے زیادہ کمزور لوگوں تک پہنچ سکے۔
فرانس:
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ ایک وحشیانہ ریاست گر گئی۔ شامی عوام کی ہمت اور صبر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ساتھ ہی ان کے لیے امن، آزادی اور اتحاد کی خواہش کرتا ہوں۔ فرانس مشرق وسطیٰ میں سب کی سلامتی کے لیے پرعزم رہے گا۔
روس:
روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد اقتدار کی پرامن منتقلی کے احکامات دینے کے بعد اقتدار چھوڑ کر ملک چھوڑ گئے ہیں۔ ماسکو شام کے تمام اپوزیشن گروپوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور تمام فریقین پر تشدد سے باز رہنے کی اپیل کرتا ہے۔
روس کے ایوان بالا پارلیمنٹ کے ڈپٹی چیئرمین کونسٹنٹین کوسا چیوف نے کہا کہ شامیوں کو اکیلے ہی پورے پیمانے پر خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایران:
ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران شام کے اتحاد اور قومی خودمختاری کا احترام کرتا ہے شامی معاشرے کے تمام شعبوں کے ساتھ "فوجی تنازعات کے فوری خاتمے، دہشت گردانہ کارروائیوں کی روک تھام اور قومی مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔
سعودی عرب:
ایک سعودی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ سعودی عرب شام کے بارے میں تمام علاقائی اداکاروں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے اور ملک کے لیے افراتفری کے نتائج سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
سعودی اہلکار کا کہنا تھا کہ ہم خطے کے تمام اداکاروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ہم ترکی اور اس میں شامل ہر اسٹیک ہولڈر کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں تاہم مملکت کو بشار الاسد کے ٹھکانے کا علم نہیں ہے۔
مصر:
مصری وزارت خارجہ کے جاری بیان میں شامی عوام اور ملک کی خودمختاری اور اتحاد کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے اور شام کے تمام فریقوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ریاست اور قومی اداروں کی صلاحیتوں کو محفوظ رکھیں۔
ترکیہ:
دوحہ میں ایک پریس کانفرنس میں فیدان نے کہا کہ شام ایک ایسے مرحلے پر پہنچ گیا ہے جہاں شامی عوام اپنے ملک کا مستقبل سنواریں گے، یہ کام شامی عوام اکیلے نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا ترکی شام کی علاقائی سالمیت کو اہمیت دیتا ہے۔ ایک نئی شامی انتظامیہ کو جامع طور پر قائم کیا جانا چاہیے اور انتقام کی خواہش نہیں ہونی چاہیے۔ نئے شام کو پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہیں ہونا چاہیے، اسے خطرات کو ختم کرنا چاہیے۔ کالعدم PKK ملیشیا کی کسی بھی توسیع کو شام میں جائز ہم منصب نہیں سمجھا جا سکتا۔
ترکی اس سارے منظر نامے کے تمام اداکاروں سے کہا کہ وہ ہوشیاری سے کام لیں اور ہوشیار رہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کو اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہونا چاہیے۔ ہم شام میں استحکام اور سلامتی کے لیے کام کریں گے۔
جرمنی:
جرمن چانسلر اولاف اسکولز نے کہا کہ بشار الاسد نے اپنے ہی لوگوں پر وحشیانہ ظلم کیا اور اپنے ضمیر پر بے شمار جانیں ڈالی۔ انہوں نے اپنے اقتدار میں بے شمار لوگوں کو شام سے بھاگنے پر مجبور کیا ہے، جن میں سے بہت سے جرمنی بھی آچکے ہیں۔ شامی عوام نے بہت خوفناک مصائب کا سامنا کیا ہے۔ شام پر اسد کی حکمرانی کا خاتمہ اس تناظر میں اچھی خبر ہے۔
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیربوک کا کہنا ہے کہ ابھی یہ کہنا ناممکن ہے کہ شام میں کیا ہو رہا ہے۔ اب ملک کو اب دوسرے بنیاد پرستوں کے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیے۔ اس لیے ہم تنازعہ کے فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام شامیوں کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ اس میں نسلی اور مذہبی اقلیتوں کا جامع تحفظ بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تاہم جو چیز اس تناظر میں اہم ہے وہ شام میں امن وامان کا بحال ہونا ہے۔ ملک کی تمام مذہبی برادریوں اور اقلیتوں کو اب اور مستقبل میں تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔
اٹلی:
اطالوی وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے کہا ہے کہ ہم زوال پذیر حکومت اور نئی حقیقت کے درمیان ایک پرامن منتقلی اقتدار حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
عراق:
عراقی حکومت کے ترجمان باسم العوادی نے کہا کہ عراق پیشرفت کو قریب سے دیکھ رہا ہے اور اس نے شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے یا ایک فریق کی دوسرے کے حق میں حمایت نہ کرنے کے فیصلے پر کاربند ہے۔
اردن:
اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ نے کہا کہ اردن شامی عوام کے انتخاب کا احترام کرتا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے شام میں مزید افراتفری کا سبب بننے والے کسی بھی تنازعہ سے بچنے اور اپنے ملک کے شمالی پڑوسی کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیا۔
قطر:
قطر کی وزارت خارجہ نے 2015 کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کے خطوط پر شام میں بحران کے خاتمے کے لیے اپنے مطالبے کی تجدید ک،ی جس میں جنگ بندی اور سیاسی منتقلی کے لیے اقدامات کیے گئے تھے۔
وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ دلچسپی کے ساتھ شام میں پیش رفت کی پیروی کر رہی ہے اور ریاست کے اتحاد کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہیں۔
یوکرین:
یوکرین کی وزیر خارجہ اندری سیبیہا نے کہا ہے کہ اسد گر گیا ہے۔ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اب بنیادی ہدف شام میں سلامتی کو بحال کرنا اور اس کے لوگوں کو موثر طریقے سے تشدد سے بچانا ہے۔
افغانستان:
طالبان انتظامیہ کی وزارت خارجہ کے جاری بیان میں شام کے عوام کو حالیہ پیش رفت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ دارالحکومت دمشق، حیات تحریر الشام کی قیادت میں شامی عوام کے کنٹرول میں آ گیا ہے اور ہم امید ظاہر کرتے ہیں کہ انقلاب کے بقیہ مراحل کو ایک پرامن، متحد اور مستحکم نظام حکومت کے قیام کے لیے موثر طریقے سے منظم کیا جائے گا۔
اسرائیل:
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اسد کا زوال ایک تاریخی دن ہے اور اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ اور ایران کو مارنے کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ہم کسی دشمن طاقت کو اپنی سرحد پر قائم نہیں ہونے دیں گے۔