بشار الاسد کی حکومت نے اتحادیوں کی مدد سے مخالف مسلح گروپس کو شکست دے کر ملک میں امن قائم کر دیا تھا لیکن ھیۃ تحریر الشام اور اس کے اتحادی دھڑوں نے ایک اچانک حملے کے بعد حلب پر قبضہ جمایا اور شامی حکومت ہی نہیں بلکہ اس کے اتحادیوں اور پوری دنیا کو حیران کر دیا۔
2011 میں بھی شامی خانہ جنگی کے دوران شام کا بیش تر حصہ اسد رجیم کے کنٹرول سے باہر ہو گیا تھا، اب جس کی یاد 27 نومبر کے حملے سے ایک بار پھر تازہ ہو گئی ہے، کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ شکست خوردہ گروپ دوبارہ پوری قوت سے حملہ آور ہوں گے۔
شام میں پانچ ایسی عسکری قوتیں لڑ رہی ہیں جن میں سے زیادہ تر کو بین الاقوامی یا علاقائی حمایت حاصل ہے۔
ھیۃ تحریر الشام
یہ ماضی میں ’النصرہ فرنٹ‘ کہلاتی تھی، القاعدہ کا حصہ رہ چکی ہے، اس کے اتحادی دھڑوں نے ادلب گورنری کے تقریباً نصف، حلب، حماۃ اور لاذقیہ گورنریوں کا تقریبا 3 ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ چھین لیا ہے۔ اس کے ساتھ کئی چھوٹے دھڑے اور جہادی گروپ شامل ہیں، جن میں ’ترکستان اسلامک پارٹی‘ بھی شامل ہے جس میں ایغور جنگجو ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 50 لاکھ لوگ ان دھڑوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر دوسری گورنریوں سے بے گھر ہوئے ہیں۔
حکومتی افواج
خانہ جنگی کے پہلے سالوں کے دوران حکومتی فورسز نے ملک کے زیادہ تر علاقے کو مخالف دھڑوں، کرد جنگجوؤں اور پھر ISIS کے ہاتھوں کھو دیا تھا، لیکن ستمبر 2015 میں روسی مداخلت، ایرانی فوجی مدد اور لبنانی حزب اللہ نے بتدریج زمینی طاقت کے توازن کو ان کے حق میں موڑنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
حکومتی افواج دمشق اور اس کے دیہی علاقوں کے علاوہ جنوب میں سویدا، درعا اور قنیطرہ، حمص، حماۃ، طرطوس اور لطاکیہ کے بڑے حصے پر کنٹرول رکھتی ہیں، حلب گورنری کے کچھ حصے، جنوبی رقہ کے دیہی علاقے اور دیر الزور گورنری کے نصف حصے پر بھی شامی حکومتی فوج کا کنٹرول ہے۔
کرد جنگجو
2015 میں ’سیرین ڈیموکریٹک فورسز‘ کا قیام عمل میں آیا تھا، اس کی ریڑھ کی ہڈی کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس ہیں، جن میں عرب اور شامی عیسائی دھڑے شامل ہیں۔ یہ شامی فوج کے بعد زمین پر قبضہ کرنے والی دوسری بڑی فوجی قوت ہے جو ملک کے تقریباً ایک چوتھائی رقبے پر قابض ہے، جہاں تقریباً تیس لاکھ لوگ رہتے ہیں، جن میں سے ایک تہائی سے زیادہ کرد ہیں۔ ان علاقوں میں بتدریج کرد جنگجوؤں کے ساتھ امریکی فوج بھی تعینات ہے۔
اس کا کنٹرول رقہ گورنری کی اکثریت پر بھی ہے، رقہ شہر برسوں سے داعش کا گڑھ رہا لیکن اب ایس ڈی ایف کے قبضے میں ہے۔ کرد جنگجو الحسکہ گورنری کے ساتھ ساتھ دیر الزور گورنری کے نصف حصے پر بھی کنٹرول کرتے ہیں، اور شام کے سب سے نمایاں آئل فیلڈز اس کے کنٹرول میں ہیں۔
ترکیہ کے وفادار گروپ
2016 کے بعد سے ترکیہ نے اپنے وفادار شامی دھڑوں ’’سیرین نیشنل آرمی‘‘ کے ساتھ مل کر شمالی شام میں کئی فوجی کارروائیاں کیں، خاص طور پر کرد جنگجوؤں کو اپنی سرحدوں سے دور دھکیلنے کے لیےانھیں نشانہ بنایا۔ ترک نواز دھڑوں میں سلطان مراد دھڑا، الحمزہ اور سلیمان شاہ دھڑے شامل ہیں۔
ترک افواج اور ان کے وفادار دھڑے حلب کے شمال مشرقی دیہی علاقے جرابلس سے اس کے مغربی دیہی علاقوں میں عفرین تک پھیلی سرحدی پٹی کو کنٹرول کرتے ہیں، جو الباب اور عزاز جیسے بڑے شہروں سے گزرتی ہے۔ وہ سرحدی شہروں راس العین اور تل ابیض کے درمیان 120 کلومیٹر طویل ایک علیحدہ سرحدی علاقے کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔
داعش
2014 میں شام اور عراق میں بڑے علاقوں کو کنٹرول کرنے کے بعد شدت پسند تنظیم ’داعش‘ کو دونوں ممالک میں پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ 2019 میں اس کے زیرکنٹرول تمام علاقے اس سے چھین لیے گئے، تب سے اب تک تنظیم کے چار رہنما مارے جا چکے ہیں، لیکن اس کے چھپے ہوئے ارکان اب بھی موجود ہیں۔ اس کے جنگجو اب بھی دیر الزور گورنری میں سرگرم ہیں۔