انقرہ: ترکی میں پناہ گزین شامی مہاجرین کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے، حال ہی میں ایک 17 سالہ شامی نوجوان کو چاقو کے وار کر کے قتل کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق شامی پناہ گزین جن کا کبھی ترکی میں کھلی بانہوں سے خیر مقدم کیا جاتا تھا، اب اپنے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافے کے باعث ترکی میں خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے واقعات کو ترکی میں آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں سیاسی فائدے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
شامی پناہ گزین نوجوان فارس علالی اس نفرت انگیز صورتحال کا تازہ ترین شکار ہے جسے حال ہی میں جنوبی ترکی کے صوبے حطائے میں چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔
17 سالہ فارس کے والد کا 2011 میں شامی تنازعے کے دوران انتقال ہو گیا جس کے بعد فارس ترکی کی ایک یونیورسٹی میں طب کی تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بننے کا عزم رکھتا تھا، اب اس کی لاش شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں منتقل کی جائے گی۔
شامی نوجوان یہاں ایک مقامی فیکٹری میں پارٹ ٹائم کام کرتا تھا جہاں مبینہ طور پر کسی خاتون ورکر سے اختلاف کے بعد انتقامی حملے میں مارا گیا۔
ترکی تقریباً 3.6 ملین رجسٹرڈ شامی مہاجرین کا مرکز بنا ہوا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزین آبادی کی آماجگاہ ہے۔
ترکی میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر نسلی بنیاد پر حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس نے غیر ملکیوں کے خلاف معاندانہ رویوں کو بھی ہوا دی ہے۔
ان دنوں ملک کی معاشی بدحالی نے سرکاری افراط زر کی شرح 80.2 فیصد اور غیر سرکاری طور پر 181 فیصد سے زیادہ دیکھی ہے۔
ترکی کے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے تناظر میں اب 10 لاکھ شامیوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کا معاملہ ملکی سیاست میں ایک گرما گرم موضوع بن گیا ہے۔
حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ دائیں بازو کی حزب اختلاف کی شخصیات نے شامیوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کا وعدہ کر کے بڑھتی ہوئی ناراضگی کا فائدہ اٹھایا ہے۔
ترکی میں شامی مہاجرین پر پرتشدد حملوں سے متعلق کوئی سرکاری اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں لیکن جون میں 2 نوجوان شامی باشندوں سلطان عبد الباسط جبنی اورشریف خالد الاحمد کو مبینہ طور پر استنبول میں الگ الگ واقعات میں مشتعل ترک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔
30 مئی کو 70 سالہ شامی خاتون لیلیٰ محمد کو جنوب مشرقی صوبے میں ایک شخص نے تھپڑ مارے، جبکہ حال ہی میں ایک 17 سالہ شامی طالب علم کو مشتعل ترک ہجوم نے زبانی بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔