کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار آئی سی سی ایونٹ نے امریکا کا سفر کیا اور ویسٹ انڈیز کی مشترکہ میزبانی میں ٹی 20 ورلڈ کپ منعقد ہوا، جس میں بھارت کو فتح حاصل ہوئی، لیکن لگ بھگ ایک ماہ تک جاری رہنے والا یہ ٹورنامنٹ ٹی 20 عالمی کپ کی 17 سالہ تاریخ کا متنازع ترین ورلڈ کپ ثابت ہوا۔
ٹی 20 ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل، اس میں پہلی بار 20 ٹیموں کی شمولیت، ویسٹ انڈیز کے ساتھ امریکا میں انعقاد کو خوش آئند اور شائقین کرکٹ اس کے سنسنی خیز ہونے کی توقع کر رہے تھے لیکن یہ ایونٹ اپنے آغاز سے پہلے ہی کئی تنازعات کا ایسا شکار ہوا کہ پھر پورے ایونٹ میں یہ سر اٹھاتے رہے اور لوگوں کو بھی انگلیاں اٹھانے کا موقع فراہم کرتے رہے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ کرکٹ کے کئی سابق بڑے ناموں نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے بھارت کو آئی سی سی کا ’’لاڈلا‘‘ تک قرار دے ڈالا گوکہ آئی سی سی پر یہ الزام نیا نہیں بلکہ ماضی میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے اسی رویے پر آئی سی سی کو انڈین کرکٹ کونسل تک کہا گیا لیکن اس بار تو جانبداری اور مبینہ فائدہ پہنچانے کی تمام حدوں کو ہی پار کر لیا گیا۔
یہ میگا ایونٹ کو مایوس کن پچز، ناقص سفری سہولیات، موسم کی مداخلت، پاکستان ٹیم کی بدترین کارکردگی، حیران کن طور پر سابق عالمی چیمپئنز پاکستان، سری لنکا سمیت نیوزی لینڈ کے پہلے مرحلے میں ہی ورلڈ کپ سے باہر ہو جانے کے علاوہ آئی سی سی کی جانب سے بھارت کی بے جا طرفداری اور دیگر ٹیموں پر ترجیح اور فیور دینے کے حوالے سے شائقین کرکٹ کے دلوں میں چبھتی ہوئی ایک تلخ یاد کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور یہی بات اس ورلڈ کپ کو ٹی 20 ورلڈ کپ کی 17 سالہ تاریخ کا متنازع ترین ٹورنامنٹ بھی بناتی ہے۔
پاکستان، نیوزی لینڈ اور سری لنکا پہلے راؤنڈ میں باہر ہوئے تو ہوئے، لیکن میزبان ویسٹ انڈیز باہر ہوا تو مقامی افراد کے لیے یہ ورلڈ کپ تو بیگانی شادی بن گیا۔ بات کریں انتطامات کی تو ٹیموں کو ایئرپورٹ پر انتظار کرنا پڑا۔ ناقص سفری سہولیات کے باعث ہوائی اڈے ہی سری لنکا، آئرلینڈ اور جنوبی افریقہ کے لیے ہوٹل بن گئے۔
اس ورلڈ کپ میں مجموعی طور پر 55 میچز کھیلے گئے، جن میں سے کئی بارش سے متاثر جب کہ ایک میچ بے نتیجہ اور تین میچز میں تو ٹاس تک نہ ہوسکا۔ جس نے ٹورنامنٹ پر بھی اثر ڈالا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ پاکستان کی کارکردگی اس میگا ایونٹ میں انتہائی بدترین رہی لیکن امریکا اور آئرلینڈ کا میچ میچ بارش کی نذر ہونے کے باعث بھی گرین شرٹس سپر ایٹ میں پہنچنے کا موقع گنوا بیٹھے، پاکستان سمیت نیوزی لینڈ، سری لنکا جیسی ٹیمیں پہلے مرحلے میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر اور چھوٹی ٹیمیں سپر ایٹ میں پہنچیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیمی فائنل اور فائنل میچ میں شائقین کرکٹ کی دلچسپی ختم ہوگئی جس کا ثبوت یہ ہے کہ دونوں سیمی فائنلز سمیت فائنل میچ کے ٹکٹ بھی 100 فیصد فروخت نہ ہوسکے اور شاید یہ میگا ایونٹ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ناک آؤٹ مرحلے میں اسٹیڈیم مکمل طور پر بھرے ہوئے نہ تھے۔
امریکا میں ورلڈ کپ کا تجربہ ناکام رہا۔ دنیا کے ایک سپر پاور ملک میں پاور فل کرکٹ نہ ہو سکی بلکہ نیویارک کی پچز تو بلے بازوں کا قبرستان ثابت ہوئیں جہاں کوئی بھی ٹیم 150 کے اسکور کے ہندسے تک نہ پہنچ سکی جب کہ دوسری اننگ میں بیٹنگ کرنے والی ٹیموں کے لیے تو137، 120 اور 113 جیسے کمترین ہدف کا تعاقب کرنا ناممکن ہوگیا اور ایسا شائقین کرکٹ نے بھارت اور پاکستان کے میچ بھی دیکھا۔ آئی سی سی اور مقامی منتظمین نے بھی میچز شیڈول کرتے ہوئے موسمی صورتحال کو مدنظر نہ رکھا جس کا نتیجہ ورلڈ کپ میں نظر آیا اور فلوریڈا میں بارش نے ٹیموں کی امیدوں پر پانی پھیرا۔
ٹی 20 ورلڈ کپ بنیادی طور پر چوکوں، چھکوں کا کھیل ہے۔ شائقین کرکٹ جارحانہ بلے بازی دیکھنے کے لیے آتے ہیں لیکن اس ورلڈ کپ میں سب کچھ الٹ ہوا۔ اس میگا ایونٹ میں بولرز کی کارکردگی اور ریکارڈز ہی نمایاں رہے جیسا کہ آسٹریلیا کے پیٹ کمنز نے کسی بھی میگا ایونٹ میں بیک ٹو بیک ہیٹ ٹرک کرنے والے پہلے بولر بنے جب کہ اسی ورلڈ کپ میں ایک ہی روز میں دو ہیٹ ٹرک بننے کا ریکارڈ بھی قائم ہوا۔ جس روز پیٹ کمنز نے افغانستان کے خلاف ہیٹ ٹرک کی، اسی روز ورلڈ کپ کے دوسرے میچ میں انگلینڈ کے کرس جارڈن نے امریکا کے خلاف یہ کارنامہ انجام دیا اور یوں ایک ہی ٹورنامنٹ میں تین ہیٹ ٹرکس بنیں۔ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار کسی بولر نے اپنے کوٹے کے چاروں اوورز میڈن کرائے۔ نیوزی لینڈ کے لوکی فرگوسن نے پاپوا نیوگنی کے خلاف 24 کی 24 ڈاٹ بالز کرائیں اور ایک بھی رن نہ دینے کے ساتھ تین بلے بازوں کو بھی آؤٹ کیا۔
تاہم ہم جب بیٹنگ کے شعبے کی جانب دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ سب سے لو اسکورنگ میچز اور یکطرفہ میچز بھی اسی ٹورنامنٹ میں ہوئے۔ 55 میچز میں سے تین میچز تو مکمل طور پر بارش کی نذر ہوئے ایک میچ ادھورا رہا جب کہ کئی فیصلے ڈی ایل ایس قانون کے تحت ہوئے۔
نواں ورلڈ کپ آئی سی سی کے لیے ایسا درد سر بنا کہ کئی منفی ریکارڈز ہی ریکارڈ بک کی زینت بن گئے جس میں ورلڈ کپ کی تاریخ کے مختصر ترین راؤنڈ میچ اور مختصر ترین سیمی فائنل بھی شامل ہوگئے۔
ٹورنامنٹ میں کھیلے جانے والے مجموعی 52 میچز میں 100 سے زائد اننگز کھیلی گئیں لیکن ایک بھی بلے باز سنچری نہ بنا سکا اورکئی سالوں بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بغیر انفرادی سنچری کے اختتام پذیر ہوا۔ ٹورنامنٹ میں سب سے بڑا انفرادی اسکور 98 رہا جو میزبان ویسٹ انڈیز کے نکولس پورن نے افغانستان کے خلاف بنایا، جب کہ بلے باز ٹورنامنٹ کے میچز کی مجموعی تعداد کے برابر بھی نصف سنچریاں اسکور نہ کر سکے، صرف 45 نصف سنچریاں ہی بن سکیں۔ ورلڈ کپ کے 55 میچز میں سے صرف 4 میچز میں ہی 200 پلس اسکور بن سکا۔ 9 میچز میں ٹیمیں 100 کا ہندسہ بھی پار نہ کر سکیں جب کہ سوائے چند میچز کے بیشتر میچز یکطرفہ ثابت ہوئے جس نے ٹی ٹوئنٹی کی روایتی مقبولیت کو گہنایا۔
اس میگا ایونٹ میں سب سے زیادہ چھکوں کا ریکارڈ تو بن گیا اور پہلی بار کسی میگا ایونٹ میں مجموعی طور پر 500 سے زائد (517) چھکے لگائے گئے تاہم اس میں بلے بازوں کی جارحانہ بیٹنگ سے زیادہ میچز کی تعداد کثیر ہونے کی وجہ سے یہ سنگ میل عبور ہوا کیونکہ آج تک کسی میگا ایونٹ میں 55 میچز نہیں کھیلے گئے۔
جس طرح کے آئی سی سی نے ٹیموں کے لیے انتظامات کیے اس سے شروع میں ہی اس پر جانبداری برتنے کے الزامات لگے اور کرکٹ سے وابستہ ماہرین سمیت شائقین کرکٹ کو بھی یہ کہنے پر مجبور کیا گیا کہ بھارت آئی سی سی کا لاڈلہ ہے جس کو ورلڈ کپ چیمپئن بنوانے کے لیے شروع سے ہی ماحول تیار کیا گیا۔ بھارت کو زیادہ سے زیادہ میچز ایک ہی گراؤنڈ میں دیے گئے تاکہ سفر کی تکان سے بچ سکیں، ہوٹلز اسٹیڈیم کے قریب دیے گئے جب کہ سری لنکا اور دیگر ٹیمیں اس حوالے سے شکایات ہی کرتی رہیں کہ ان کے ہوٹلز اسٹیڈیم سے کافی دور رکھے گئے ہیں۔ میچز کے اوقات کار بھی بھارت کی سہولت کے مطابق رکھے گئے۔ نیویارک میں ورلڈ کپ کا سب سے بڑا مقابلہ پاک بھارت ٹاکرا ہوا۔ جہاں دونوں ٹیمیں پہلی بار کھیل رہی تھیں اور پچز ایڈیلیڈ آسٹریلیا سے درآمد کی گئی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئی سی سی اس بڑے مقابلے سے قبل دونوں روایتی حریف ٹیموں کو پچ جاننے اور ہم آہنگ ہونے کے لیے ایک ایک میچ کھیلنے کا موقع فراہم کرتا تاہم اس کے برعکس بھارت کو تو پاکستان سے مقابلے سے قبل آئرلینڈ کے ساتھ میچ دے دیا گیا جب کہ گرین شرٹس کو پہلی بار انڈیا کے خلاف ہی میدان میں اترنا پڑا۔
آئی سی سی کی جانب سے ٹیم انڈیا کو سپورٹ کیے جانے کے لیے حد سے گزر جانے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل ہی بلیو شرٹس کو معلوم تھا کہ اگر وہ سیمی فائنل میں پہنچے تو وہ کس میدان میں اتریں گے۔ گروپ میں ٹاپ ہونے کی وجہ سے بھارت کے سیمی فائنل کے لیے ریزرو ڈے بھی نہ رکھا گیا تاکہ اگر بارش سے میچ واش آؤٹ ہو تو ’’لاڈلہ‘‘ بغیر کھیلے فائنل میں پہنچ جائے۔
بھارت کو آؤٹ آف وے جا کر سہولتیں دینے اور دیگر ٹیموں پر ترجیح دینے کی باتیں جہاں سابق انگلش کپتان مائیکل وان، انضمام الحق سمیت دیگر نے کیں وہیں سابق بھارتی کھلاڑی سنجے منجریکر بھی خاموش نہ رہے اور آئی سی سی کی جانبداری پر بول اٹھے، لیکن بھارت چونکہ سب سے امیر اور کماؤ پوت بورڈ ہے اس لیے کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کہاوت مشہور ہے کہ دودھ دینے والی گائے کی لات بھی برداشت کرنی پڑی ہے اور یہ لات ہر ٹورنامنٹ میں دیگر ٹیموں کو نقصان پہنچاتی آ رہی ہے۔
(یہ مصنّف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی بلاگ/ تحریر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)