اشتہار

طالبان کا اقوام متحدہ سے متعلق بڑا فیصلہ

اشتہار

حیرت انگیز

طالبان نے اقوام متحدہ میں بھرتی خواتین کے کام کرنے پر پابندی لگا دی ہے اور اقوام متحدہ نے طالبان کے اس اقدام کی تصدیق کر دی ہے۔

افغانستان پر طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے ملک میں خواتین کے حوالے سے کئی اقدامات سامنے آئے تھے جن میں اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں پر پابندی سمیت دیگر اقدامات شامل ہیں تاہم اب طالبان حکومت نے خواتین پر پابندیوں کا دائرہ کار عالمی اداروں پر بھی کر دیا ہے اور غیر سرکاری تنظیموں کے بعد اب اقوام متحدہ میں بھی خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ میں بھرتی خواتین کے کام پر عائد پابندی کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے افغانستان میں مشن (یوناما) کا کہنا ہے کہ مشرقی صوبے ننگرہار میں قائم عالمی ادارے کے دفتر میں کام کرنے والی خواتین کو روکا گیا ہے۔

- Advertisement -

گزشتہ سال دسمبر میں طالبان نے ملکی اور غیر ملکی این جی اوز میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کی تھی تاہم اقوام متحدہ کے دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو استثنیٰ حاصل تھا۔ تاہم گزشتہ ماہ ہی یوناما کی سربراہ نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے سامنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ طالبان کی حکومت این جی اوز کے بعد پابندی کا اطلاق اقوام متحدہ میں کام کرنے والی خواتین پر بھی کر سکتی ہے۔

سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان اسٹیفین ڈیوجارک نے صحافیوں کو بتایا کہ یوناما کو طالبان حکومت کے احکامات کا علم ہوا جس میں اقوام متحدہ میں بھرتی خواتین کو کام کرنے سے روکا گیا ہے۔ ان کے خیال میں احکامات کا اطلاق صرف صوبہ ننگرہار میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں قائم اقوام متحدہ کے دفاتر میں کام کرنے والی خواتین پر ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ نے طالبان کی جانب سے پابندی کے اس حکم نامے کو نا قابل قبول قرار دیا ہے۔ عالمی ادارے کے ترجمان اسٹیفین ڈیوجارک نے کہا ہے کہ اس قسم کی کوئی بھی پابندی ناقابل قبول ہے اور اس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

 

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں تک امداد پہنچانے اور زندگیاں بچانے میں خواتین اہلکاروں کی موجودگی اقوام متحدہ کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے۔ ہمارے لیے یہ سوچنا بھی انتہائی مشکل ہے کہ ہم خواتین اسٹاف کے بغیر کس طرح سے انسانی امداد کی ترسیل کو ممکن بنائیں گے۔

ترجمان کے مطابق فی الحال اقوام متحدہ کو طالبان کی جانب سے تحریری احکامات موصول نہیں ہوئے اور متعلقہ حکام سے مل کر تمام معاملے پر وضاحت طلب کریں گے۔

دوسری جانب جب اس حوالے سے طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے ننگرہار کی انتظامیہ سے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں اقوام متحدہ کے 3,900 اہلکاروں میں سے 3,300 افغان شہری ہیں جن میں خواتین کی تعداد 600 ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں