بھارت میں سال 1995 میں ہونے والی قتل کی ایک ہولناک واردات ’تندور قتل کیس‘ کی روداد آج بھی سننے والوں کو خوف میں مبتلا کردیتی ہے جس نے اس وقت پورے ملک میں خوف کی لہر پیدا کردی تھی۔
یہ کہانی بھارت کی سیاسی جماعت کانگریس کے اس رہنما کی ہے جس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ شدید غصے کے عالم میں کی گئی ایک سنگین غلطی اسے کہاں سے کہاں لے جائے گی جس نے اس کی زندگی کو برباد کرکے رکھ دیا۔
ایک جرم کو چھپانے کیلئے دوسرا جرم کرنے والا سشیل شرما اپنی بیوی نینا ساہنی کا قاتل تھا اور 23سال جیل میں سزا کاٹ کر 2018 میں رہا ہوا۔ قتل کی یہ ہولناک واردات ’تندور قتل کیس‘ کے نام سے کئی سال اخبارات کی شہ سرخیوں کا حصہ بنی رہی۔
واردات کے وقت کیا ہوا؟
یہ 2جولائی1995 کی رات کا واقعہ ہے جسے بھارتی اخبارات نے پولیس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے شائع کیا کہ یہ قتل سشیل اور نینا (میاں بیوی) کے درمیان خراب تعلقات کا شاخسانہ تھا۔ سشیل کو اس بات کا شک تھا کہ اس کی بیوی کے کسی اور مرد سے ناجائز تعلقات ہیں۔
اس کیس کے تحقیقاتی پولیس افسر میسویل پیریرا جنہوں نے اپنی کتاب میں قتل کے محرکات اور واردات کے طریقہ کار کا تفصیلی ذکر کیا ہے، کا کہنا ہے کہ سشیل نے نینا سے اُس رات اس شخص کے بارے میں دریافت کیا جس سے وہ فون پر گفتگو کر رہی تھی جس کے جواب میں نینا نے بھی غصے سے جواب دیا کہ وہ اس کی زندگی میں مداخلت نہ کرے۔
انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ میں سشیل کے سیاسی قد کاٹھ اور نینا کے سیاسی حلقوں میں خود اعتمادی کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نینا شوہر سے ڈرنے والی بیویوں میں سے نہیں تھی۔
اس رات سشیل شراب کے نشے میں دھت تھا اور یہ بات سن کر شدید غصے میں بھی آگیا اور بقول سشیل کے اس رات نینا بھی نشے کی حالت میں تھی۔
اسی اثناء میں غصے میں آ کر سشیل نے اپنی دراز سے پستول نکالا اور نینا پر پے در پے تین فائر کیے، ایک گولی اس کے سر پر دوسری اس کی گردن پر اور تیسری گولی نشانہ چوک کر کسی اور چیز کو جا لگی، جس کے بعد نینا نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔
لاش چھپانے کی منصوبہ بندی
پیریرا کی کتاب کے مطابق سشیل نے واردات کے بعد اس بات کا یقین کیا کہ گولی کی آواز باہر کسی نے سنی تو نہیں پھر مطمئن ہونے کے بعد کمرے میں پھیلے ہوئے خون کو صاف کرکے لاش کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنایا۔
پہلے اس نے لاش کو دریائے جمنا میں پھینکنے کا ارادہ کیا اور اسے لے کر باہر نکلا لیکن دریا پر لوگوں کو موجود پاکر اس نے حکمت عملی تبدیل کی اور لاش کو لے کر اپنے دوست کیشوو کمار کے ریسٹورنٹ پہنچا اور اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔
کیشوو نے فوری طور پر ریسٹورنٹ کو بند کردیا، یہ رات گیارہ بجے کی بات ہے جب سشیل اور کیشوو نے مل کر لکڑیاں جمع کیں اور نینا کی لاش کو کاٹ کر تندور میں جلادیا۔
کتاب میں لکھا ہے کہ جب مقتولہ نینا کی لاش جل رہی تھی تو اس وقت سشیل کو خیال آیا کہ یہ میں نے کیا کر دیا؟ یہ مجھ سے کیسے ہو گیا؟
رات گیارہ بجے ریسٹورنٹ کے تندور میں لگنے والی آگ کے شعلوں نے گشت پر مامور پولیس اہلکار کی توجہ حاصل کی جب تک پولیس اہلکار وہاں پہنچتا اس سے قبل سشیل اور کیشوو موقع واردات سے فرار ہوچکے تھے۔
بعد ازاں یہ خبر جلد ہی اخبارات کی شہ سرخیوں میں آئی اور سب کو چونکا دیا کیونکہ اس کا تعلق ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کانگریس کے ایک اہم سیاسی رہنما سے تھا۔
بالآخر سشیل نے نو دن مفرور رہنے کے بعد خود کو بنگلور پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم سشیل نے قتل کا اعتراف تو کیا ہے اور ساتھ ہی کچھ سیاست دانوں کے نام بھی شامل کیے ہیں اس لیے شک تھا کہ وہ ہمیں کہانیوں سے الجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
پولیس کیلئے نینا کی جلی ہوئی لاش کی شناخت کرنا بھی مشکل تھا بعد ازاں مقتولہ کے سابق دوست مطلوب کریم نے اس کی لاش کو شناخت کیا، اس کی لاش کے دو مربتہ پوسٹ مارٹم ہوئے۔
دونوں رپورٹوں نے نینا کی موت کی وجہ کے بارے میں متضاد نتائج دیے، پہلی رپورٹ میں کہا گیا کہ نینا کی موت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ہوئی اور شاید جب اسے کاٹا گیا تو وہ بے ہوش تھی جبکہ دوسری پوسٹ مارٹم رپورٹ نے پہلی رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ نینا کو دو بار گولی ماری گئی تھی۔
تندور قتل کیس کی سماعت میں دہلی کی ایک عدالت نے سال 2003 میں سشیل کو مجرم قرار دے کر موت کی سزا سنائی تھی پھر سال 2007 میں دہلی ہائی کورٹ نے اس کی سزا کو برقرار رکھا تاہم 2013 میں سپریم کورٹ نے اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔
مجھے اپنے کیے پر پچھتاوا ہے
جیل میں 23 سال اسیری کاٹنے کے بعد اسے 2018 میں رہا کیا گیا۔ رہائی کے بعد سشیل نے کہا کہ مجھے اپنے کیے پر بے حد افسوس ہے اور میں دوسرے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کبھی بھی جذبات یا غصے میں آکر کوئی فیصلہ نہ کریں۔