جمعہ, اپریل 25, 2025
اشتہار

تان سین اور ہرن والی حکایت

اشتہار

حیرت انگیز

برصغیر میں تان سین کو علم موسیقی کا بادشاہ سمجھا گیا ہے۔ تان سین سے متعلق اکبر کے دور کے مؤرخین نے بھی لکھا ہے اور بعد میں‌ آنے والوں نے بھی، لیکن اکثر ایسے واقعات اور حکایات بھی سننے کو ملتی ہیں جن کی صداقت نہایت مشکوک ہے۔ خاص طور پر تان سین کا راگ سن کر ہرنوں کا اس کے گرد جمع ہوجانا یا موسم میں تغیر۔ البتہ تان سین کو عظیم فن کار سبھی مانتے ہیں۔ 26 اپریل کو تان سین چل بسا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ تان سین نے علم موسیقی کی تعلیم و تربیت کے مراحل گوالیار کے ایک مکتب میں مکمل کیے تھے۔ یہ اس وقت کے ایک راجا مان سنگھ تنور کا قائم کردہ مکتب تھا۔ کچھ عرصے راجاؤں کے درباروں سے جڑے رہنے کے بعد تان سین کو بادشاہ اکبر نے اپنے نورتنوں میں شامل کرلیا تھا۔ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ تان سین ہندو تھے۔ لیکن "آئینِ اکبری” میں شیخ ابو الفضل نے آپ کو میاں تان سین لکھا۔ یہ ایک قسم کا وہ لقب ہے جو کسی مسلمان کے لیے برتا جاتا تھا۔ شاید اسی سبب تان سین کو ایک قبرستان میں ابدی آرام گاہ ملی۔ سچ یہ ہے کہ تان سین کی زندگی کے ابتدائی حالات، اس کا مذہب، پیدائش اور درست تاریخِ وفات بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ہندوستانی موسیقی کا بادشاہ تھا۔ ابوالفصل نے اکبر نامہ میں لکھا ہے کہ پچھلے ہزار سال میں شاید ہی کوئی کاونت ایسا پیدا ہوا ہوگا۔

خیال ہے کہ تان سین کا اصل نام ترلو چن داس تھا۔ وہ ذات کا گوڑ برہمن تھا۔ اس کے باپ کا نام بعض کتابوں میں مکرند پانڈے ملتا ہے جو گوالیار کے رہنے والے تھے۔ تان سین موضع بھینٹ میں پیدا ہوا۔ سینہ بہ سینہ اقوال اور روایات سے محققین نے قیاس کیا کہ تان سین 1524ء میں پیدا ہوا تھا۔ اور یہ برصغیر میں صدیوں سے رائج بکرمی تقویم کے مطابق 1582ء بنتا ہے۔

محققین کے مطابق تان سین نے کئی راگ اور راگنیاں اختراع کی تھیں۔ میاں توری، میاں سارنگ، میاں کی ملہار اور درباری کانگڑا اس کی چند تخلیق ہیں جو اس وقت تک زندہ رہیں گی جب تک کلاسیکی موسیقی زندہ ہے۔ تان سین سے دو تصانیف سنگیت سارا اور راگ مالا بھی منسوب ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ تان سین دربارِ اکبری میں 1562ء میں پہنچا اور نغمہ سرا ہوا تو اکبر کو بھا گیا۔ وہ اس سے بہت مثاثر ہوا اور بہت زیادہ انعام دیا۔

تان سین کی وفات کا سنہ 1589ء بتایا جاتا ہے۔ اس گلوکار کو حضرت محمد غوث گوالیاریؒ کے مقبرہ کے قریب دفنایا گیا اور کہتے ہیں کہ تدفین کے وقت اکبر کے حکم پر ہندوستان کے تمام بڑے مغنی بھی موجود تھے۔

تان سین کے فن کے متعلق ایک حکایت بھی زبان زد عام رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں کوئی گائک بیجو باورا تھا جو راگ کی دھن میں ہمیشہ مست رہتا اور اس پر موسیقی کا جنون تھا۔ ایک روز تان سین گوالیار کے گھنے جنگل میں راگ الاپ رہا تھا کہ بیجو بھی ادھر آ نکلا۔ دونوں نے آمنے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ شروع کردیا۔ بیجو نے اساوری راگ الاپنا شروع کیا۔ اس راگنی کی تاثیر یہ بتائی جاتی ہے کہ اسے سن کر ہرن جمع ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ جب ہرن راگنی سن کر ان کے پاس آگئے تو بیجو نے اپنے گلے سے سونے کا ہار اتار کر ایک ہرن کے گلے میں ڈال دیا۔ وہ خاموش ہوا تو سب ہرن واپس جنگل میں چلے گئے۔ بیجو نے تان سین کو چیلنج کیا کہ تمھیں جب استاد مانوں گا کہ میرا سنہری ہار جس ہرن کے گلے میں تھا، اسے یہاں آنے پر مجبور کردو۔ یہ سن کر تان سین ایک راگ الاپنا شروع کیا جو راگ میان کی ٹوڑی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس راگ کی تاثیر بھی وہی ثابت ہوئی جو ساوری کی تھی۔ ہرنوں کا وہی گروہ پھر نمودار ہوگیا اور انہی میں وہ ہرن بھی شامل تھا جس کے گلے میں بیجو نے ہار ڈالا تھا۔ تب بیجو نے تان سین کے روبرو زانوئے ادب تہ کیا اور اسے اپنا استاد تسلیم کرلیا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں