جمعہ, ستمبر 6, 2024
اشتہار

طارق چھتاری: "جن کے تصور سے روشنی پیدا ہوتی ہے!”

اشتہار

حیرت انگیز

طارق چھتاری کا خیال ذہن میں آتا ہے تو ع۔۔۔ فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں، والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں اور اس میں سن و سال کی کوئی قید نہیں کہ جن کے تصور سے روشنی پیدا ہوتی ہے اور یہ روشنی دیر تک اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔

طارق چھتاری سے اپنی پہلی ملاقات یاد نہیں لیکن ان کا تصور آتے ہی جو پہلا منظر سامنے آتا ہے اس کا مختصراً بیان کچھ یوں ہے۔ پس منظر میں مسلم یونیورسٹی کی اونچی سرخ عمارتیں، تارکول کی سڑک کے دو رویہ سرکش و سرسبز درخت، جاڑوں کا موسم، ایک وجیہ و شکیل نو عمر جس کے بدن پر گہرے رنگ کا قدرے لمبا کوٹ تھا اور ہاتھوں میں ایک سرخ بائسیکل کے ہینڈل تھے یا شاید اسکوٹر کے ہینڈل تھے۔ وہ اکیلا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہم عمر دو لڑکے اور تھے۔ میں انھیں دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرایا تھا۔ یہ لڑکے اس زمانے کی یونیورسٹی کے خوش لباسوں میں یگانہ تھے۔ آج سے تیس بتیس برس پہلے کی یونیورسٹی۔ طارق چھتاری نے ایک مضمون میں اس زمانے کا بڑا سچا اور دل کش نقشہ کھینچا ہے۔ کچھ سطریں اس مضمون سے مستعار ہیں، ’’یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ کی پرکشش اور سحر آگیں رومانوی فضا یونیورسٹی کے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارنے اور استعمال کرنے کی محرک ہوا کرتی تھی۔ کنیڈی ہاؤس کا خوش نما احاطہ، مولانا آزاد لائبریری کے سامنے کا وسیع سبزہ زار، فیکلٹی آف آرٹس کی سہ منزلہ جدید طرز کی خوب صورت عمارت کے صدر دروازے پر بنے حوض، مختلف عمارتوں کو ایک دھاگے میں پرونے والی صاف شفاف دھلی دھلائی سی سفید ٹھنڈی سڑکیں۔ پام، ساگون، گل مہر اور یوکلپٹس کے اونچے اونچے درخت۔ کینٹین کے وسیع وعریض ہال کی نیم تاریک اور پُرسکون فضا میں صوفے نہایت سلیقے سے آراستہ ہیں، طالبِ علم خراماں خراماں چلے آرہے ہیں، برآمدے نما پورٹیکو میں داخل ہوتے ہیں اور رنگین شیشوں والے محراب دار بڑے دروازے سے اندر پہنچ کر صوفوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سعادت مند ویٹر پانی کے گلاس ٹرے میں لیے قریب آتے ہیں اور جھک کر میز پر سجا دیتے ہیں۔ سینئر طالبِ علم آرڈر دے دیتا ہے، اس کی آواز اتنی نرم اور دھیمی ہوتی ہے کہ اگر خاص طور سے سننے کی کوشش نہ کی جائے تو شاید برابر بیٹھا شخص بھی نہ سن سکے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ طالبِ علم گفتگو میں محو ہی رہتے ہیں اور ویٹر پانی لگا کر خاموشی سے بغیر آرڈر لیے واپس چلا جاتا ہے مگر تھوڑی دیر بعد وہ ایک ٹرے میں ٹیکوزی ڈھکی کیتلی، دودھ دان، شکر دان، چمچے اور چند پیالیاں لے کر اس طرح آتا ہے جیسے طالبِ علموں کی خواہشات اور ضروریات سے وہ پہلے سے واقف ہو۔ نہ کسی کو آرڈر دینے کی ضرورت ہے، نہ اسے آرڈر لینے کی، گویا وہ سب کے دل کی زبان سمجھتا ہے۔

اس زمانے میں اس کینٹین کا کنٹریکٹ اُردو کے ایک مشہور شاعر جناب جاوید کمال کے پاس تھا۔ کاؤنٹر پر کبھی جاوید کمال صاحب اور کبھی میکش بدایونی صاحب بیٹھے نظر آتے۔ ریٹائر ہونے کے بعد کبھی کبھی جذبی صاحب بھی شام کی چائے پینے اسی کینٹین میں تشریف لاتے۔ ان شخصیات کی موجودگی آشفتہ چنگیزی، مہتاب حیدر نقوی، صغیر افراہیم، شارق ادیب، فرحت احساس، خورشید احمد، نسیم صدیقی، غضنفر، اظہار ندیم، پیغام آفاقی، پرویز جعفری، عبدالرحیم قدوائی، قمرالہدیٰ فریدی، اسعد بدایونی، شہپررسول، غیاث الرحمٰن، ابن کنول اور سیّد محمد اشرف کو اکثر و بیش تر وہاں کھینچ لاتی۔ گفتگو شروع ہوتی، کبھی کسی ادبی مسئلے پر بحث ہو رہی ہے، کبھی کوئی مضمون پڑھا جا رہا ہے، کبھی شاعری سنی جارہی ہے اور کبھی افسانہ، یہاں سے اٹھ کر یہ احباب کبھی شہریار صاحب تو کبھی قاضی عبدالستار صاحب کے دولت کدے پہنچتے اور بہت سی گتھیاں ان اہل دانش کی گفتگو سن کر سلجھ جاتیں۔ ان دنوں علی گڑھ کے یہ نوجوان ادیب ترقی پسند تحریک اور جدیدیت دونوں کے فکری اور فنی رویوں سے غیر مطمئن تھے اور کسی نئی راہ کی تلاش میں تھے۔

- Advertisement -

اس وقت علی گڑھ میں کئی ایسے ریسٹورنٹ تھے جہاں ادیب اور شاعر بیٹھتے۔ کیفے ڈی لیلیٰ، کیفے ڈی پھوس، پیراڈائز، کبیرؔ کا ٹی ہاؤس، عاشق علی کی کینٹین، رائل کیفے اور Monsieurکے علاوہ راجا پنڈر اول کا ایک خوب صورت ریستوراں ’’Seven Stars‘‘ بھی تھا۔ رائل کیفے اور Monsieur جدید طرز کے ریسٹورینٹ تھے جہاں بلیرڈ کی میزیں بھی تھیں مگر سیون اسٹارس ایسا ریستوراں تھا جس میں قدیم وضع کے صوفے، نقشیں چمنیوں والے شمع دان، عالی شان فانوس، انگلستانی کروکری اور خوش اخلاق و خوش گفتار و خوش رو راجا قاسم علی خاں نواب آف پنڈر اوّل کی بہ نفس نفیس موجودگی۔ وہ اکثر شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ آکر بیٹھ جاتے، شعر سنتے اور شعر سناتے۔‘‘

ان ناموں میں جاوید حبیب، نذیر بوم اور محی الدین اظہر کانام بھی شامل سمجھا جائے۔

اس زمانے میں دن طویل ہوتے تھے اور راتیں طویل تر۔ کلاس روم کی پڑھائی کے علاوہ ذہن پر اگر کوئی بوجھ ہوتا تھا توبس یہ کہ اخراجات کے لیے گھر سے جو روپے آتے ہیں وہ مہینہ سے پہلے ختم نہ ہوجائیں۔ دل میں ترنگیں تھیں اور آنکھوں میں اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے، گلابی گلابی رنگوں کے خواب لشکارے مارتے تھے۔ اس زمانے میں زندگی کے طے شدہ مقاصد کا اتنا رواج نہیں تھا جتنا اب ہے۔ خود میں نے یونیورسٹی چھوڑ نے سے ڈیڑھ دو برس پہلے سوچا تھا کہ مستقبل میں دو وقت کی روٹی کا کیا انتظام ہو۔ طارق چھتاری نے بھی یقیناً وقت کو اتنے ہی عرصے تک بہلا پھسلا کر رکھا ہوگا اور غالباً دوستوں نے ایساہی کیا ہوگا۔ وہ وقت اور تھا۔ شروع میں طارق چھتاری کا اٹھنا بیٹھنا ان لوگوں کے ساتھ نہیں تھا جو عرفِ عام میں شاعر و ادیب کہلاتے تھے۔ پھر دھیرے دھیرے شاعروں اور ادیبوں کی جماعت کو احساس ہوا کہ ایک ذہین، شگفتہ مزاج، باحوصلہ اور بامروت شخص آپ ہی آپ ان کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ بغیر کسی اعلان کے ہوا تھا۔ میرے استاد زادے اور ہم وطن اور بڑے بھائی کے دوست شارق ادیب (ڈاکٹر مظفر سیّد) نے ایک دن چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا،

’’یارا شرف! طارق کو دیکھ کر فاختہ کا خیال آتا ہے۔‘‘

مجھے ان کا یہ جملہ آدھا سچ لگا۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر وہ بولے، ’’یہ اس لیے کہ فاختہ کسی کو زک نہیں پہنچاتی۔ بے ضرر ہوتی ہے۔‘‘

طارق چھتاری کے بارے میں اس وقت میری معلومات کم تھیں لیکن پرندوں کے بارے میں اچھی خاصی تھیں۔ میں نے کہا، ’’فاختہ اپنے سے چھوٹی چڑیا کے لیے رحم دل ہے لیکن اس سے زیادہ طاقت کا کوئی پرندہ اگر اس کو تکلیف دے تو وہ فضا میں اُڑ اُڑ کر اس سے ٹکر لیتی ہے۔‘‘

میں نے اپنے قصبے کے آنگن میں لیٹے لیٹے ایسے کئی منظر یاد کیے جس میں بڑی فاختہ (یا حق تو، یا دوست تو) نے فضا میں اس کوے پر کئی کاری جھپٹیں کی تھیں جو اس کا گھونسلہ خراب کرنا چاہتا ہے۔ میں نے یہ سب بیان کیا تو شارق ادیب ہنس پڑے۔

اس شام ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ طارق چھتاری کوؤں کے علاوہ باقی تمام مخلوق کے لیے فاختہ کی طرح بے ضرر ہیں۔

کچھ دن بعد شارق ادیب نے مجھے مطلع کیا کہ چوں کہ طارق چھتاری نجی محفلوں میں کسی غائب شخص کے بارے میں برے کلمات نہیں کہتے، اسی بے ضرر ہونے کی صفت کی وجہ سے انھیں فاختہ سے تشبیہ دی گئی۔ اب جو غور کیا تو طارق چھتاری کے کردار کی ایک اور خوبی سامنے آئی کہ وہ کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے۔ یہ خوبی یا خرابی اب تک باقی ہے۔

اس زمانے میں طارق چھتاری کو بزرگوں سے بہت لگاؤ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب جب رشید صاحب کے گھر گیا تو طارق چھتاری وہاں موجود تھے یا دروازے سے نکل رہے تھے، یا رشید صاحب نے ان کی آمد کا ذکر کیا۔

1975ء تک علی گڑھ کے طالبِ علم ادیب دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے، لیکن میں نے اکثر دیکھا کہ طارق چھتاری کو کسی کے ساتھ سے پرہیز نہیں تھا۔ علی گڑھ میں اس وقت علم و ادب سے وابستہ مندرجہ ذیل شخصیات تھیں۔ طارق چھتاری نے اپنے ایک ہم عصر پر شخصی مضمون لکھتے وقت ان سب کو یاد کیا ہے۔

طارق چھتاری کے خلاقانہ انتظام کا ایک نمونہ گورکھ پور ریڈیو اسٹیشن پر نظر آیا۔ طارق چھتاری نے فکشن پر ایک ایسے سمینار کا اہتمام کیا جس میں اردو اور ہندی کہانی لکھنے والوں کو ایک جگہ جمع کردیا۔ اردو اور ہندی کی کہانی پر دو مضمون پڑھے جاتے ایک اردو نقاد کا دوسرا ہندی نقاد کا۔ مقصد صرف یہ نہیں تھاکہ دونوں زبانوں کے ادیب اور نقاد ایک ساتھ جمع ہوجائیں۔ اصل مدعا یہ تھاکہ ایک زبان کی کہانی پر اسی زبان کے نقاد اور دوسری زبان کے نقاد کی تنقید کا فرق سامنے آسکے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس بہانے کئی اچھے افسانے اور کئی اچھے مضامین وجود میں آگئے۔

نیّر مسعود نے اپنی کہانی ’’وقفہ‘‘ پڑھی تھی۔ خورشید احمد نے ایک ہندی کہانی پر بہت اچھا مضمون پڑھا تھا۔ دو دن کی ان محفل آرائیوں کے روح رواں طارق چھتاری تھے۔ ان محفلوں میں قاضی عبدالستار اور کے پی سنگھ جیسے بزرگ بھی تھے، گو اس وقت وہ ایسے بزرگ نہیں تھے۔ ایک لطیفے کا صدور بھی ہوا۔ علی گڑھ سے جب گورکھ پور چلنے کی تیاری ہورہی تھی تو میں نے قاضی صاحب سے عرض کیا کہ آپ میرا بھی ریزرویشن کرا دیں، جب وہاں ریڈیو سے پیسہ ملے گا تب ادا کر دوں گا۔ فرمایا، ’’آپ خورد ہیں اورآپ کو یہ زیب دیتا ہے کہ آپ اپنے بڑوں سے ایسی فرمائش کریں۔ میں کے پی سنگھ سے کہتا ہوں۔‘‘

غرض یہ کہ ریزرویشن ہوا اور ہم لوگ گورکھ پور پہنچے۔ کڑاکے کے جاڑے تھے۔ تمام ادیب گرم لباس میں ملبوس تھے۔ دوپہر کے وقت ریڈیو سے پیسے ملے۔ میں نے فوراً حساب لگایا اور بیچ محفل میں جا کر قاضی صاحب سے کہا، ’’یہ ٹکٹ کے پیسے ہیں۔‘‘

انھوں نے تیوری چڑھا کر ڈانٹا اور کہا، ’’خوردوں کو زیب نہیں دیتا کہ اس طرح بزرگوں کو روپے واپس کریں۔ میں ان روپوں کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتا۔ آپ یہ روپے کے پی سنگھ کو دے دیں۔ میں ان سے لے لوں گا۔ یا بصورت دیگر کل صبح جب میں دستانے پہنے ہوں تب آپ یہ روپے مجھے دیجیے گا۔‘‘

علی گڑھ میں کوئی ادیب شاعر آئے، شہریار اور طارق چھتاری سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔ طارق چھتاری شعبۂ اُردو سے مہمان خانے تک اس مہمان کا ساتھ دیتے ہیں اور ضرورت پڑے تو اس مہمان کی ملاقات یونیورسٹی کے دوسرے ادیبوں سے کرانے میں پٹرول اور وقت دونوں کی پروا نہیں کرتے اور یہ سب کچھ بے غرض ہوتا ہے۔ وہ شعبۂ اُردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے غیر رسمی چیف آف دی پروٹو کول ہیں۔ طارق چھتاری ادب میں اپنی شہرت اور مقبولیت اور شعبے میں منصب کے اس درجے پر فائز ہیں کہ انھیں ان محنتوں اور زحمتوں کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن ان معاملات میں وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ بنگال کے کسی دور افتادہ قصبے کا اُردو کا کوئی استاد اگر شعبۂ اُردو میں قدم رکھے گا تو سب سے پہلے طارق چھتاری کو ہی دریافت کرے گا اور یہ عین ممکن ہے کہ طارق چھتاری نے اس دن سے پہلے اس شخص کی شکل تک نہیں دیکھی ہوگی۔

ادبی جلسوں میں طارق چھتاری سب کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ ادیب اور شاعر انھیں بہت توجہ سے سنتے ہیں۔ کسی سمینار یا سمپوزیم کی نظامت کر رہے ہوں یا Moderation کر رہے ہوں تو ان کی باتیں سننے میں دل لگتا ہے۔ ادبی معاملات میں وہ بہت صاف گو ہیں لیکن یہ صاف گوئی کسی کی دل آزاری یا حوصلہ شکنی کا سبب نہیں بنتی۔ وہ اپنی بات بہت سلیقے، تہذیب اور پُر زور دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

ستر کی دہائی کے آخری حصے میں ان کی کہانیاں سامنے آئیں۔ یہ وقت ترقی پسندی اور جدیدیت کی سخت آویزش کا دور تھا۔ طارق چھتاری اور علی گڑھ میں ان کے معاصرین ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک کے بھی باد فروش بننا نہیں چاہتے تھے۔ ان دونوں گروہوں کے بڑوں کے درمیان کھڑے ہوکر طارق چھتاری بہت اطمینان سے اپنا موقف بیان کرتے اور لہجے کو تاب دار کیے بغیر اپنی بات مکمل کرکے ہی گفتگو ختم کرتے۔ ہم لوگ ذرا اکھڑ لہجے، طنز آمیز مکالموں اور دل آزار جملوں سے کام لیتے تھے۔ اس لیے اکثر بھول چوک ہوجاتی تھی۔ طارق چھتاری ایسے تمام موقعوں پر اپنے نرم لہجے، دلیل کی قطعیت اور مناسب مثالوں کے ہتھیاروں سے کام لے کر ہم لوگوں کی حماقتوں کی تلافی کردیتے تھے۔

( طارق چھتاری اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہے۔ وہ 1970ء کے بعد کی نسل کے ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ بھارت کے معروف ادیب اور افسانہ نگار سید محمد اشرف کے طارق چھتاری کے فن اور شخصیت پر ایک مضمون سے یہ پارے نقل کیے گئے ہیں)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں