گڑھی شاہو کے صدر بازار میں ہر وقت گہما گہمی رہتی۔ اتوار کے روز کریانے کی دکانوں جنرل اسٹورز اور گلیوں کے نکڑ پر تازہ سبزی فروشوں کے ہاں خاصی بھیڑ ہوا کرتی۔ عورتیں بچے، بوڑھے جوان، سبھی ہاتھوں میں تھیلے تھامے گھر سے نکل پڑتے۔ میرا بھی کچھ ایسا ہی معمول تھا۔
ٹیلی ویژن اسٹیشن جانے کی جلدی نہ ہوتی تو بھرے بازار میں ایک چکر ضرور لگا لیتا۔ گھر کے لئے سودا سلف لیا، اڑوس پڑوس میں علیک سلیک کی، لوگوں سے ملے۔
سڑک پر اکثر کیرج فیکٹری کی طرف سے سائیکلوں پر سوار سانولے سلونے نسوانی وجود دکھائی دیتے۔ یہ خواتین اسکرٹ اور بلاؤز میں ملبوس ہوتیں۔ گھنے، گھنگھریالے شارٹ کٹ بالوں میں اور بھی بھلی لگتیں۔ یہ اینگلو انڈین خواتین تھیں۔ یہیں رہائش پذیر تھیں۔ پیدائشی لاہورن تھیں، لیکن کسی تاریخی حادثے کی وجہ سے یہ قبیل اینگلو انڈین ہی کہلاتا۔
انگریز برصغیر سے جا چکا تھا اور ملک آزاد ہوئے بھی عرصہ ہونے کو تھا، لیکن ان کے وجود کے ساتھ تاریخ کی ایسی مہر ثبت تھی جس پر کوئی بھی معترض نہ تھا۔ کیرج فیکٹری کے راستے کے دائیں بائیں آبادیوں میں یہ لوگ رہائش پذیر تھے۔ سائیکل کے کیریئر پر ٹوکریاں رکھے بازار میں آتیں۔ بریک لگاتیں، سائیکل سے اترتیں، ٹوکری ہاتھ میں تھامے، سبزی فروشوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہو جاتیں۔ رنگ برنگے، پھولدار فراک ان کی پہچان تھے۔ بعض خواتین کے گلے میں کراس Cross جھولتا دکھائی دیتا۔ کبھی کبھار ان میں سے کچھ بغیر بازو کے فراک میں ہوتیں۔ ان کے سلیولیس Sleeveless ٹاپس اور عیاں پنڈلیوں پر کوئی بھی معترض نہ تھا۔ ہر کوئی اپنے آپ میں جی رہا تھا۔ یہ لوگ تو یہاں کے مکینوں سے بھی زیادہ مدت سے آباد تھے۔ ان کے آباء نے بھلے وقتوں میں ریلوے کے محکمے کو اپنا مسکن بنا لیا۔ یا یوں کہہ لیں انگریز کی زیرک نظر نے جہاں برصغیر میں وسیع اور جامع انفراسٹرکچر کی بنیاد فراہم کر دی وہاں پیشہ ورانہ انسانی وسائل کے صحیح استعمال کا اہتمام بھی کیا۔ اس اینگلو انڈین کمیونٹی کے محنتی افراد نے نارتھ ویسٹرن ریلویز کو ایک قابلِ رشک ادارہ بنا دیا۔ برصغیر میں ریلوے کے نظام کو بڑے مختلف انداز سے قائم کیا۔ مشرق میں بنگال آسام ریلوے لائن کا قیام عمل میں آیا، بمبئی سے بڑودہ تک ایک علیحدہ سلسلہ تھا۔ اوٹی اور اودھ کے درمیان ایک اور ریلوے کا سلسلہ تھا۔ شمال مغرب میں دلّی، لاہور، کراچی اور پشاور کو ایک نظام میں مربوط کرکے ’نارتھ ویسٹرن ریلوے‘ قائم کر دی گئی جس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں تھا۔
اس سارے خطے میں پڑھا لکھا اینگلو انڈین جہاں کہیں بھی تھا، لاہور کی سمت کھینچا چلا آیا اور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔
(طارق محمود کی خود نوشت ’دامِ خیال‘ سے اقتباس، مصنّف ریٹائرڈ بیورو کریٹ اور رائٹر ہیں جنھوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں بغرضِ ملازمت قیام کیا اور اس کتاب میں انھوں نے اپنے مشاہدات اور واقعات کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا ہے)