تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

ترقّی کا ابلیسی ناچ

جہاں تک تبدیلی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے اگر آپ غور کریں تو ایسی کوئی تبدیلی آئی ہی نہیں ہے یا آتی نہیں جیسی کہ آنی چاہیے۔

اگر آپ تاریخ کے طالبِ علم ہیں بھی تو یقیناً آپ تاریخ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ آپ نے ضرور پڑھا ہو گا یا کسی داستان گو سے یہ کہانی سنی ہو گی کہ پرانے زمانے میں جب شکاری جنگل میں جاتے تھے اور شکار کرتے تھے، کسی ہرن، نیل گائے کا یا کسی خونخوار جانور کا تو وہ ڈھول تاشے بجاتے تھے اور اونچی اونچی گھنی فصلوں میں نیچے نیچے ہو کر چھپ کر اپنے ڈھول اور تاشے کا دائرہ تنگ کرتے جاتے تھے اور اس دائرے کے اندر شکار گھبرا کر، بے چین ہو کر، تنگ آ کر بھاگنے کی کوشش میں پکڑا جاتا تھا اور دبوچ لیا جاتا تھا۔

ان کا یہ شکار کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ ہاتھی سے لے کر خرگوش تک اسی طرح سے شکار کیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ چلتا رہا اور وقت گزرتا رہا۔

خواتین و حضرات، بڑی عجیب و غریب باتیں میرے سامنے آ جاتی ہیں اور میں پریشان بھی ہوتا ہوں لیکن شکر ہے کہ میں انہیں آپ کے ساتھ شیئر بھی کر سکتا ہوں۔ میرے ساتھ ایک واقعہ یہ ہوا کہ میں نے سنیما میں، ٹی وی پر اور باہر دیواروں پر کچھ اشتہار دیکھے، کچھ اشتہار متحرک تھے اور کچھ ساکن، کچھ بڑے بڑے اور کچھ چھوٹے چھوٹے تھے اور میں کھڑا ہو کر ان کو غور سے دیکھنے لگا کہ یہ پرانی شکار پکڑنے کی جو رسم ہے، وہ ابھی تک معدوم نہیں ہوئی ویسی کی ویسی ہی چل رہی ہے۔

پہلے ڈھول تاشے بجا کر، شور مچا کر ’’رولا‘‘ ڈال کے شکاری اپنے شکار کو گھیرتے تھے اور پھر اس کو دبوچ لیتے تھے۔ اب جو اشتہار دینے والا ہے، وہ ڈھول تاشے بجا کے اپنے سلوگن، نعرے، دعوے بیان کر کے شکار کو گھیرتا ہے، شکار بِچارہ تو معصوم ہوتا ہے۔ اسے ضرورت نہیں ہے کہ میں یہ مخصوص صابن خریدوں یا پاؤڈر خریدوں۔ اسے تو اپنی ضرورت کی چیزیں چاہییں ہوتی ہیں لیکن چونکہ وہ شکار ہے اور پرانے زمانے سے یہ رسم چلی آ رہی ہے کہ اس کا گھیراؤ کس طرح سے کرنا ہے تو وہ بظاہر تو تبدیل ہو گئی ہے لیکن بہ باطن اس کا رخ اور اس کی سوچ ویسی کی ویسی ہے۔

آپ نے دیکھا ہو گا، آپ خود روز شکار بنتے ہیں۔ میں بنتا ہوں اور ہم اس نرغے اور دائرے سے نکل نہیں ‌سکتے۔ پھر جب ہم شکار کی طرح پکڑے جاتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں تو پھر اپنے ہی گھر والوں سے پنجرے کے اندر آ جانے کے بعد لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے ہی عزیز و اقارب سے جھگڑا کرتے ہیں کہ تمہاری وجہ سے خرچہ زیادہ ہو رہا ہے۔ دوسرا کہتا ہے نہیں تمہاری وجہ سے یہ مسئلہ ہو رہا ہے۔ حالانکہ ہم تو شکاری کے شکار میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ترقیّ ہو گی اور وہ شکار کا پرانا طریقہ گزر چکا ہے تو میں سمجھتا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ کام ترقیّ کی طرف مائل نہیں ہوا ہے بلکہ ہم اسی نہج پر اور اسی ڈھب پر چلتے جا رہے ہیں۔

(از اشفاق احمد)

Comments

- Advertisement -