تازہ ترین

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

سری لنکا میں چائے کی صنعت کو بڑا خطرہ، وجہ بھی سامنے آگئی

سری لنکا میں مصنوعی کھاد کے استعمال پر پابندی نے چائے کی فصل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، کسانوں نے حکومت کو دہائیاں دینا شروع کردیں۔

سری لنکا میں مصنوعی کھاد سے پاک فصلیں پیدا کرنے کے جنون نے ایک بڑا غذائی اور معاشی بحران کھڑا کر دیا ہے جس کا پہلا نشانہ چائے کی فصل بنے گی جب کہ دیگر فصلیں بھی اس جنون کی وجہ سے متاثر ہوگیں جیسے دار چینی، لاک مرچ اور اناج مثلاً چاول وغیرہ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سری لنکا کی کل آمدنی دس فیصد حصّہ چائے کی برآمد سے ہوتا ہے جو سالانہ 1.25 ارب ڈالرز ہے۔

‏76 سالہ گونارتنے جو دنیا کی مہنگی ترین چائے پیدا کرتے ہیں، خطرہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر حکومت نے کوئی بروقت فیصلہ نہ لیا تو سری لنکا کی اوسط سالانہ پیداوار 30 کروڑ کلو گرام سے گھٹ کر آدھی رہ جائے گی۔

خیال رہے کہ گونارتنے کی ‘ورجن وائٹ ٹی’ 2,000 ڈالرز فی کلو فروخت ہوتی ہے۔

سری لنکا ویسے ہی وبا کی وجہ سے معاشی بحران سے دوچار ہے اور اس کی کُل مقامی پیداوار (جی ڈی پی) گزشتہ سال تین فیصد کم ہو گئی تھی، مزید حالات کو معمول پر لانے کی امیدوں کو کرونا وائرس کی ایک نئی لہر سے بھی دھچکا پہنچا ہے۔

کھاد اور کیڑے مار ادویات گاڑیوں اور فاضل پرزہ جات کی طرح سری لنکا کی اہم درآمدات میں شامل ہیں، جو حکومت نے غیر ملکی زرِ مبادلہ کی قلت کی وجہ سے روک دی ہیں۔

راجپکشا 2019ء میں برسرِ اقتدار آئے تھے، ان وعدوں کے ساتھ کہ وہ کاشت کاروں کو کم قیمت پر غیر ملکی کھاد دیں گے، لیکن حکومت سنبھالنے کے بعد انہوں نے ‘یو ٹرن’ لے لیا اور کہا کہ زرعی کھاد تو دراصل زہر ہے جو لوگوں کو کھلایا جا رہا ہے۔

چائے کے باغات کے مالکان کہتے ہیں کہ آمدنی میں کمی کے ساتھ ساتھ پیداوار گھٹنے سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری بھی پھیلے گی اور چائے کی کمپنیوں میں کام کرنے والے تیس لاکھ افراد کا روزگار خطرے میں پڑجائے گا۔

Comments

- Advertisement -