دنیا بھر سے فٹبال کے شائقین کا تجسس روس میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ 2018 کے نئے میچز کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور ہر کوئی یہ جاننے کے لیے بےچین ہے کہ کون سی ٹیمیں کوارٹر فائنل اور فائنل راؤنڈ تک پہنچنے میں کامیاب ہو ں گی۔ شایقین خاص کر بک میکرز جنھوں نے بڑی بڑی رقمیں فائنل میں پہنچنے والی ٹیموں پر لگائی ہوئی ہیں ان کی توجہ کا خاص مر کز وہ فٹ بال بھی ہے جو ورلڈ کپ 2018 میں کھیلنے کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ 1970 سے ایڈیڈاس نامی کمپنی ہر چار سال بعد ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کے لیے فٹبال تیار کرتی ہے اور اس برس ان کی تیار کردہ فٹبال کو ‘ٹیل سٹار18’ کا نام دیا گیا ہےجو دراصل سٹار آف ٹیلی وژن کا مخفف ہے۔1970 میں تیار کی جانے والی فٹبال کو بھی یہی نام دیا گیا تھا کیونکہ اس دور میں ٹیلی وژن بلیک اینڈ وائٹ ہوا کرتے تھے،لہذا ٰ ٹی وی پر میچ دیکھنے والے شائقین کی اکثریت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے فٹبال سفید اور کالے رنگ سے بنائی گئی تھی تاکہ ٹی وی پر اسے واضح طور پر دیکھا جا سکے۔
اس فٹبال اور 2018 میں ورلڈ کپ مقابلوں میں استعمال ہونے والی بال میں صرف نام ہی مما ثل ہے ،ان کی ساخت اور بناوٹ میں فرق کے علاوہ اب رنگ میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے اور سفید ، کالے کے ساتھ گرے اور گولڈن رنگوں کی لائننگ کی گئی ہے جس کے باعث نئی فٹبال دیکھنے میں بھی پر کشش اور پائیدار لگتی ہے۔48 برس میں فٹ بال کی ساخت میں ہونے والی ان تبدیلیوں کی تفصیلات اس قدر متنوع ہیں کہ انھیں بلاشبہ ‘ فٹبال کی سائنس ‘ کہا جاسکتا ہے۔ جس میں ماہرین ِ طبیعات، کیمیاء اور ایپلی کیشن انجینئرز نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
ماضی میں فٹبال تیار کرنے کے لیے لیدر استعمال کیا جاتا تھا اور بلیڈرز کو اس لیدر میں مضبوطی کے ساتھ لپیٹ کر ٹانکے لگا دیئے جاتے تھے جو عموما زوردار کک لگانے سے پھٹ جاتے تھے ۔اس کے علاوہ لیدر چونکہ پانی کافی مقدار میں جذب کر لیتا ہے اس لیے گراؤنڈ پر پانی موجود ہونے کے باعث فٹ بال پانی جذب کر کے بھاری ہو جاتے تھے اور کھلاڑیوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لہذا ٰ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تیاری کے مٹیریل پر خصو صی تحقیق کی گئی اور کئی برس کی کوششوں کے بعد 1986 میں میکسیکو ورلڈ کپ کے لیئے ایک خاص پولیمر ‘ پولی یوری تھین’ سے فٹبال تیار کی گئی ۔ جس میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت بہت کم تھی ۔ اس کے بعد بھی فٹبال کی تیاری کے مٹیریل پر تحقیقات جاری ہیں اور آج کل ایڈیڈاس جو فٹبال تیار کر رہا ہے وہ 99 فیصد واٹر پروف ہوتی ہیں ۔
مگر کھلاڑیوں کو دورانِ میچ اور بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ دیکھنے والوں کو فٹبال کا کھیل جتنا آسان لگتا ہے در حقیقت اس کے ایک راؤنڈ میں ہی کھلا ڑیوں کی حالت بری ہو جاتی ہے۔ ماضی میں تیار کی جانے والی فٹبالز گول کے بجائے کُروی شکل کی ہوا کرتی تھیں جن کو کک لگانے میں کھلاڑیوں کو مشکل پیش آتی تھی ۔ 1970 میں پہلی دفعہ جو ٹیل سٹار تیار کی گئی تھی وہ بھی کُروی تھی اور اس میں 32 پینلز اس طرح بنائے گئے تھے کہ اندرونی ساخت میں 20 مسدس( چھ کونوں والی جیو میٹری کی اشکال) اور 12 مخمس ( پانچ کونوں والی اشکال ) تھیں۔
دراصل اس طرح کے سٹرکچر کا تصور انجینئرز کو کاربن ایٹم کے قدرتی طور پر پائے جانے والے مالیکیولز سے حاصل ہوا تھا جسے کیمیاء کے زبان میں ‘فلیرینس’ کہا جاتا ہے جوفزیکلی انتہائی پائیدار سٹرکچر سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ گزرتے وقت کے ساتھ فٹبال کی سا خت میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں مگر کاربن ما لیکیول والا یہ سٹرکچر اب بھی بڑے پیما نے پر اس کے تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فٹبال پروفیشنل مقابلوں میں بھی استعمال کی جاتی ہیں ۔ مگر فیفا ورلڈ کپ کے لیے آرگنائزرز کی ہمیشہ سے یہ ترجیح رہی ہے کہ کھیل کے لیئے پہلے سے بہتر اور جدید طرز پر تیار کی گئی فٹبال فراہم کی جائے۔ لہذاٰ 2006 میں برسوں کی روایت کو توڑتے ہوئے 32 پینلز کی جگہ محض 14 پینلز والی فٹبال متعارف کروائی گئی جسے ‘ ٹیم جیسٹ’ کا نام دیا گیا تھا۔اس کے بعد بھی ہر برس فٹبال کی ساخت میں ان پینلز کی تعداد کم ہوتی گئی اور ٹیل سٹار 18 اس حوالے سے قابل ِ ذکر ہے کہ اس میں صرف 6 پینلز ہیں ۔ اور ان کی ڈیزائننگ میں فٹبال کی فلائٹ ( ہوا میں اڑان ) سے متعلق ایرو ڈائنامکس کی اہم امور کو ملحوظ ِ خاطر رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایرو ڈائنامکس فزکس کی وہ شاخ ہے جس میں اجسام کی ہوا میں اڑان سے متعلقہ خصوصیات کا مشا ہدہ کیا جاتا ہے۔ مثلا ََ ہوا کا رخ اجسام کے ہوا میں اڑنے پر کتنا اور کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ دراصل فٹ بال کی یہی ایرو ڈائنامکس خصو صیات اور موسم کسی بھی میچ کا پانسہ لمحوں میں پلٹنے کی صلا حیت رکھتے ہیں ۔
اس کے بعد 2014 میں برازیل میں ہونے والے ورلڈ کپ مقابلوں کے لیے چھ پینلز والی فٹبال متعارف کروائی گئی جسے ‘ برازوکا ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ مگر اس فٹبال میں تمام چھ پینلز ایک جیسے ڈیزائن کے نہیں تھے جس کے دوران ِ میچ منفی اثرات سامنے آنے کے بعد اس پر مزید تحقیقات کی گئیں اور 2018 کی ٹیل سٹار میں چھ پینلز ایک ہی فارمیٹ کے رکھے گئے ہیں ۔ اور ان میں ٹانکوں ( سٹچز ) کی لمبائی برازوکا سے ایک میٹر زیادہ رکھی گئی ہے۔جس کے باعث ٹیل سٹار کی اڑان برازوکا سے 8 سے 9 فیصد کم ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان دنیا بھر میں فٹبال کی تیاری کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتا ہے مگر یہاں ابھی بھی روایتی طریقے سے پینلز کو جوڑنے کے لیے ٹانکے لگائے جا تے ہیں جس کے باعث یہ فٹبالز زیادہ پائیدار نہیں ہو تیں۔
اگرچہ ہاتھ سے سلی ہوئی یہ فٹبالز لمبے عرصے تک پروفیشنل مقابلوں میں استعمال ہوتی رہی ہیں مگر سائنسدان ایک طویل عرصے سے تحقیقات میں مصروف تھے کہ روا یتی طریقۂ کار کی جگہ کوئی نئی تکنیک متعارف کراوئیں ۔ لہذا ٰ 2006 کے فیفا ورلڈ کپ میں جو فٹبال کھیلنے کے لیئے فراہم کی گئی اس میں پینلز کو جوڑنے کے لیئے روایتی ٹانکوں کے بجائے تھر مل بونڈنگ کا طریقہ استعمال کیا گیا تھا۔ اس کیمیکل طریقے سے فٹبال کی ناصرف پائیداری میں ا ضافہ ہوا بلکہ پینلز کے درمیان فاصلہ بڑھنے اور مناسب فلنگ سے بال کی ہوا میں اڑان میں نمایاں کمی نوٹ کی گئی ہے اور پوری قوت سے کک مارنے پر بھی وہ ہوا میں ادھر ادھر جا نے یا زگ زیگ گھومنے کے بجائے سیدھی گول میں جا کر گرتی ہے۔ اس کے علاوہ تھرمل بونڈنگ کی وجہ سے فٹبال اب مکمل طور پر واٹر پروف ہو گئی ہیں۔ تیاری میں آسانی ،کم وقت اور کم لاگت آنے کے باعث دنیا بھر میں ٹیل سٹار کی مانگ میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بار بھی ٹورنا منٹ میں استعمال کردہ فٹ بال پاکستان میں بن رہی ہے تاہم اس کی ٹیکنالوجی مکمل طور پر بدیسی ہے ۔
فی الوقت ورلڈ کپ فٹبال کے مقابلے پورے زور و شور سے جاری ہیں اور دنیا بھر کے شائقین کے نظریں اس وقت اپنی اپنی فیورٹ ٹیم کی کارکردگی پر جمی ہوئی ہیں ۔ ایسے میں کچھ ٹیموں کے گول کیپرز کی جانب سے ٹیل سٹار کے بارے میں منفی ریمارکس بھی سامنے آئے ہیں کہ اس فٹبال کا ڈیزائن کچھ ایسا بنایا گیا ہے کہ یہ کک مارنے پر ہوا میں بہت تیزی سے اوپر اٹھتی ہے جس کے باعث لمحوں میں اسے قابو کرنا گول کیپرز کے لیئے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر ایڈیڈاس کے ایپلی کیشن انجینئرز اور سائنسدانوں نے اس اعتراض کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ٹیل سٹار کا کُروی اور چھ یکساں پینلز والا ڈیزائن ہر طرح سے ایک پائیدار اور آئیڈیل ڈیزائن ہے جسے باقاعدہ تجربات کے بعد مقابلوں کے لیئے پیش کیا گیا ہے۔
ورلڈ کپ سے قبل کیے جانے والے ان تجربات کو ورجینیا یونیورسٹی کے پروفیسر ارک گوف نے ‘ وائنڈ ٹنلنگ’ کا نام دیا تھا ، جن میں ٹیل سٹار کے ہوا کے مختلف دباؤ اور رخ میں اوپر کی جانب اٹھنے ، مڑنے یا تیزی سے سونگ ہوجانے سے متعلق مکمل تجزیہ کیا گیا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس فٹبال کی رفتار 90 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جو برازوکا کی نسبت کافی زیادہ ہے مگر اس کی ہوا کے خلاف مزاحمت کی صلا حیت زیادہ ہے، لہذا ٰ پوری قوت سے ٹھوکر مارنے پر بھی یہ بہت زیادہ فاصلے پر نہیں جاتی ۔ اگرچہ سٹرائیکرز کے لیئے یہ کوئی خوش کن پہلو نہیں ہے جو بال کو دور سے گھیر کر گول پوسٹ کی طرف لیکر آتے ہیں اور عموما دور سے زوردار کک کا طریقہ استعمال کرتے ہیں ، مگر دوسری جانب گولیز ( گول پوسٹ کے قریب گول کرنے والے کھلاڑی) کے لیے یہ فٹبال اچھی ثابت ہوگی اور اس کے ساتھ فری کک، کارنر کک، یا درمیانی رینج کی مضبوط کک کی سٹر ٹیجی بہترین رہے گی۔کیونکہ ٹیل سٹار کے مخصوص ڈیزائن کے ذریعے بال کے ہوا میں خم اور مڑ جانے کے اثرات کو بہت حد تک کم کر دیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں مصنوعی ذہانت والی کئی عالمی شہرت یافتہ ایپلی کیشنز نے ورلڈ کپ2018کی فاتح ٹیم کے بارے میں پیشن گوئی کی ہے جن کے مطابق سپین کے فائنل جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں جبکہ ہاٹ فیورٹ جرمنی کے کوارٹر فائنل میں ہار جانے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کھیلوں میں بڑھتے ہوئے یہ سائنسی اثرات انھیں پر کشش بنا نے اور شائقین کا تجسس بڑھانے میں کتنے معاون ثابت ہوتے ہیں ؟۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں