جسمانی معذوری کسی شخص کو حرکت کرنے سے معذور تو کرسکتی ہے، لیکن اس کے تخیل، اس کی سوچ اور اس کی صلاحیتوں کو محدود نہیں کرسکتی۔ اسی کی عملی مثال 32 سالہ حنا خالد ہیں جو معذوری کے باوجود بہت سے مکمل طور پر صحت مند لوگوں سے زیادہ باہمت اور حوصلہ مند ہیں۔
حنا ایک نارمل چائلڈ تھیں جن کا بچپن بہت خوبصوت انداز میں گزرا، تاہم ان کی مشکلات کا آغاز 12 سال کی عمر سے ہوا۔ ایک دن انہیں اپنے جسم میں شدید تکلیف کا احساس ہوا، حنا کو ڈاکٹرز کے پاس لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے انہیں کہا کہ ان کے مسلز پر دباؤ پڑ رہا ہے جو جلد ہی ٹھیک ہوجائے گا۔
حنا اور ان کے والدین پرامید ہو کر گھر آگئے تاہم 2 ہفتوں بعد حنا کا نچلا دھڑ مکمل طور پر مفلوج ہوگیا جس کے بعد وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہوگئیں۔
ان کی معذوری ڈاکٹرز کے لیے حیران کن تھی۔ ڈاکٹرز نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کا ایم آر آئی کیا جس میں انکشاف ہوا کہ ہڈی میں انفیکشن ہوچکا ہے جس کے ناسور نے مسلز کو تباہ کردیا ہے۔
ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ اس انفیکشن کو دواؤں کے ذریعے ٹیومر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جس کے 4 سے 5 ماہ کے اندر حنا پرسکون موت مر سکتی ہیں،لیکن اگر مرض کو اسی حالت میں چھوڑ دیا جائے تو انہیں ساری زندگی بستر پر گزارنا ہوگی۔
مزید پڑھیں: معذوری مجبوری نہیں، ماں کی قربانیوں سے بچہ یونیورسٹی میں داخل
حنا کے والدین نے اپنی بیٹی کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور انہیں گھر لے آئے۔
وہیل چیئر اور بستر تک محدود ہونے کے باوجود حنا نے اپنی تعلیم مکمل کی اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہیل چیئر کی وجہ سے انہیں کوئی نوکری نہ مل سکی تاہم اس سے مایوس ہونے کے بجائے حنا میں حوصلہ پیدا ہوا۔
حنا نے گھر بیٹھے ہی مختلف کورسز کیے اور اب وہ ایک فوٹو گرافر، بلاگر، گرافک ڈیزائنر، 3 ڈی ویژولائزر ہیں جبکہ ایک جیولری برانڈ کی بھی مالک ہیں۔
حنا کہتی ہیں کہ جب ہم صلاحیت اور قابلیت کی بات کرتے ہیں تو اسے جسمانی حالت سے جوڑنا نہایت غلط ہے، ’ضروری نہیں کہ دو ہاتھ رکھنے والا ہر شخص مصور ہو، کوئی مصور اگر ہاتھوں سے محروم ہے تو وہ پاؤں سے اپنی صلاحیت کا اظہار کرسکتا ہے‘۔
وہ کہتی ہیں کہ جب لوگ معذوروں کو کہتے ہیں تم نارمل ہو تو انہیں بہت برا لگتا ہے، ’کیا ہم کسی نارمل شخص کو جا کر کہتے ہیں کہ تم نارمل ہو؟ معذوروں کو نارمل کہنا تو ایک طرح سے انہیں احساس دلانا ہے کہ وہ نارمل نہیں ہیں‘۔
حنا کہتی ہیں کہ حدود صرف ہمارے دماغ میں ہوتی ہیں، جب ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں تو حدود کوئی معنی نہیں رکھتیں۔