اسلام آباد : معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ آئین میں عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ میں آزادی بھی ہونی چاہیے، کسی جج کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل خود بھی نوٹس لے سکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ جسٹس فائز عیسیٰ کے کیسز سے متعلق پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک اہم دن تھاسپریم کورٹ کااہم فیصلہ آیا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل واحد ادارہ ہے جو اعلیٰ عدلیہ سے متعلق تحقیقات کرسکتا ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں حکومت کی جانب سے ریفرنس بھیجا گیا تھا، سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجے گئے ریفرنس کو چیلنج کیا گیا تھا، ریفرنس کوسپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے چیلنج کیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے شارٹ آرڈر کے تحت ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا اور سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس کو بھی عدالت نے کالعدم قرار دیا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ 7روز میں کمشنر ان لینڈ ریونیو انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت نوٹس ایشو کرینگے اور 60 روز کمشنر ان لینڈ ریونیو سماعت کریں گے، مجموعی75روز میں چیئرمین ایف بی آر کو رپورٹ پیش کی جائے گی۔
چیئرمین ایف بی آر رپورٹ ملنے کے بعد7روز میں رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجیں گے اور سپریم جوڈیشل کونسل آرٹیکل209کے تحت کارروائی کرسکتا ہے، چیئرمین ایف بی آر رپورٹ نہیں بھیجتے تو چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل جواب طلب کرسکتے ہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کےفیصلے سے مطمئن ہے،احسن فیصلہ ہے، حکومت چاہتی ہے پاکستان میں عدلیہ آزاد ہو، شروع سےیقین رکھتےہیں ججز کے معاملات سپریم جوڈیشنل کونسل دیکھے
انہوں نے کہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجنے کے بعد حکومتی کام ختم ہوجاتا ہے، آج ایسا ماحول بنایا گیا کہ کسی کی جیت اور کسی کی ہار ہے، یہ ہرگز کسی جیت نہ ہار ہے، آئین میں رہتے ہوئے کام کیا۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ تحریری فیصلے میں کہیں بھی عدلیہ نے بدنیتی کا لفظ استعمال نہیں کیا، فیصلےمیں کہیں بھی اے آر یو کا ذکر نہیں ہے، یہ ایک پروسس ہے جو عدالتی فیصلے کے متعلق ہی چلے گا، شہزاد اکبر نے بتایا کہ عدالت میں حکومت کہہ چکی تھی معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیں، پٹیشنر نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے سے معذرت کرلی تھی۔
مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرف کیا جائے، پنجاب بار کونسل
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پنجاب بار کونسل نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف پیش کی گئی چھ نکاتی قرارداد منظور کرلی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انہیں سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرف کیا جائے۔
قرارداد میں آرٹیکل 209(پانچ) کے تحت کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا جبکہ متن میں یہ بھی کہا گیا کہ ’ عدلیہ کے ارکان کو آئین کے اختیار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔