تازہ ترین

رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ، آرمی چیف مہمان خصوصی

رسالپور : آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر آج...

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

حکومت کی کل ہی ضمنی بجٹ منظور کرانے کی منصوبہ بندی

حکومت نے کل ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے فنانس بل منظور کرانے کی منصوبہ بندی کر لی۔

ذرائع کے مطابق قائمہ کمیٹی خزانہ کل رپورٹ سینیٹ میں پیش کرےگی اور ایوان بالا ہی منظوری دے کر سفارشات قومی اسمبلی کو بھیج دے گا۔

قومی اسمبلی سےکل ہی بل کی منظوری کی تیاری کر لی گئی ہے۔ ارکان قومی اسمبلی کوایوان میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

گذشتہ روز وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں منی بجٹ پیش کرتے اربوں روپے کا ٹیکس عائد کیے تھے۔

علاوہ ازیں جمعرات کے روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں سپلیمنٹری فنانس بل 2023 کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر کمیٹی کے رکن اور پی ٹی آئی سینیٹر محسن عزیز نے منی بجٹ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کئی سوالات اٹھا دیے۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ میں منی بجٹ کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہوں اور حکومت سے پوچھتا ہوں کہ بتائے آئی ایم کے دباؤ پر کتنے ٹیکس لگائے گئے ہیں؟ فنانس بل میں 170 ارب کے ٹیکس لگائے گئے ہیں یا پھر یہ 520 ارب روپے کا منی بجٹ ہے؟

پی ٹی آئی سینیٹر نے یہ بھی پوچھا کہ آئی ایم ایف سے ستمبر میں مذاکرات ہوئے تو ڈیل کرنے میں تاخیر کیوں کی گئی؟ ان حالات میں ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کیسے کھڑی ہوگی؟

اس موقع پر چیئرمین ایف بھی آر عاصم احمد نے اجلاس کو سپلیمنٹری فنانس بل پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ منی بجٹ کے ذریعے 170 ارب کے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ 30 جون تک کا خسارہ پورا کرنے کیلیے اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ اس سے حاصل ریونیو آئندہ ساڑھے 4 ماہ میں جمع ہوگا۔

اس موقع پر محسن عزیز نے نشاندہی کی کہ سالانہ بنیاد پر ٹیکس کا حجم 510 سے 520 ارب روپے بنتا ہے جب کہ قائمہ کمیٹی خزانہ نے بھی اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ لگژری درآمدی اشیا پر ٹیکس میں اضافے سے اسمگلنگ بڑھے گی۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ کابینہ سے منظوری کے بعد بھی ایف بی آر کو ٹیکس میں ردوبدل کا اختیار ہے جس پر سینیٹ کمیٹی ارکان نے حکومت کے اس اختیار پر تحفظات کا اظہار کردیا۔ مسلم لیگ ن کی سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ وہ ایف بی آر کے اس اختیار کو مسترد کرتی ہیں۔

چیئرمین ایف بی آر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے سارے اختیارات ایف بی آر کو ملنے والے ہیں۔ تمام کو آرڈینیشن اور نگرانی ایف بی آر کے پاس ہوگی۔ وفاقی حکومت اس حوالے سے جلد نوٹیفکیشن جاری کرنے والی ہے۔

اس موقع پر وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سبسڈی دینے کا کلچر بہت پرانا چلا آ رہا ہے، بجلی اور گیس مہنگی پیدا کرکے سستی بیچنے کا کلچر ہے، جس کو اب ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاور سیکٹر چلا لیں یا پھر ملک۔

Comments

- Advertisement -