راستہ بھٹکنے اور اپنے اپنوں سے بچھڑ جانے کا تصور نہایت روح فرسا ہے، اور جب راستہ زمین پر نہیں بلکہ سمندر پر بھٹک جائیں تو زندگی کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں، تاہم ایک باہمت شخص ایسا ہے جو سمندر میں راستہ بھٹک کر 13 ماہ تک سمندر کی لہروں پر ڈولتا رہا اور خود کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق 35 سالہ جوز سلواڈور 438 روز تک سمندر میں بھٹکتا رہا۔
17 نومبر 2012 کو جوز سلواڈور اپنے ایک نوجوان ساتھی ازیکیوئل کورڈوبا کے ساتھ مچھلیوں کے شکار کے لیے جنوبی میکسیکو کے ایک گاؤں سے بحر الکاہل سے روانہ ہوا۔
یہ دونوں ماہی گیر سمندر میں 3 گھنٹے تک شکار کرنے کا منصوبہ بنا کر روانہ ہوئے تھے، مگر سفر کے آغاز پر چند گھنٹوں بعد ہی طوفان کا سامنا ہوا جو 7 دن تک ان کی کشتی کو دھکیلتا رہا اور وہ اپنے راستے سے بھٹک گئے۔
25 فٹ طویل اس کشتی میں بادبان یا موٹر بھی نہیں تھی تو ان کی مشکلات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جوز سلواڈور کی عمر اس وقت 35 سال تھی جبکہ اس کا نا تجربہ کار ساتھی 22 سال کا تھا، دونوں کو طوفان کا علم پہلے سے تھا مگر وہ اس سے بھی سخت موسم کا سامنا کرچکے تھے۔
سمندری لہریں بہت زیادہ بپھری ہوئی تھیں اور ایک موقع پر ازیکیوئل کورڈوبا پانی میں گرگیا تھا اور جوز نے اس کی جان سر کے بال کھینچ کر بچائی۔
انجن کے ساتھ ساتھ ان ماہی گیروں کو ریڈیو اور مچھلی پکڑنے کے آلات سے محرومی کا بھی سامنا ہوا، کشتی پر کوئی کور نہیں تھا، بس ایک آئس باکس، ایک مچھلی رکھنے والا بڑا صندوق اور ایک بالٹی ان کے پاس تھی۔
جب طوفان تھم گیا تو جوز کو معلوم تھا کہ وہ میکسیکو سے بہت دور جاچکے ہیں، وہ اپنے سروں پر طیاروں کو پرواز کرتے دیکھ رہے تھے مگر مدد کا سگنل دینے کا کوئی سامان موجود نہیں تھا، جس کی وجہ سے سمندر میں پھنسی یہ کشتی نادیدہ ہوگئی۔
جوز کا کہنا ہے کہ شروع میں تو ہم نے بھوک کے بارے میں سوچا نہیں تھا، بلکہ پیاس نے ہمیں پریشان کیا ہوا تھا، طوفان کے بعد ہم اپنا پیشاب پینے پر مجبور ہوگئے، ایک ماہ بعد جا کر ہمیں کچھ بارش کا پانی میسر آیا۔
اپنے آبائی ملک ایل سلواڈور میں جوز نے سیکھا تھا کہ مچھلی کو بغیر کانٹے کے صرف ہاتھوں سے کیسے پکڑا جاسکتا ہے اور بحرالکاہل کی گہرائیوں میں مچھلی اس کے ہاتھوں سے پھسل جاتی تھی اور انگلیوں میں پھنسانا پڑتا تھا۔
مگر کچھ مچھلیوں کو پکڑنا کافی نہیں تھا، ان کے جسم پانی اور پروٹین کی کمی کا شکار ہو رہے تھے بلکہ جوز کو احساس ہوتا تھا کہ حلق سکڑ کر منہ کے قریب پہنچ گیا ہے۔ سورج کی شدید تمازت ان کے جسموں کو جلا دیتی تھی اور آئس باکس کے نیچے چھپ کر کچھ بچت ہوتی تھی۔
سمندری پرندے ان کی کشتی کے ارگرد جمع ہونے لگے اور وہ اس کو سمندر میں آرام کی ایک غیر متوقع جگہ تصور کرنے لگے۔
جب جوز نے پہلی بار ایک پرندے کو پکڑا تو ازیکیوئل کورڈوبا خوف کے عالم میں یہ سب دیکھ رہا تھا کیونکہ کسی زندہ مرغی کی طرح جوز نے اس کے ٹکڑے کردیئے تھے، ان پرندوں کے خون سے ان کو زندگی بچانے کا قیمتی سیال بھی ملا۔
جوز کے مطابق ہم ان کے گلے کاٹ کر خون پی لیتے، جس سے حالت بہتر محسوس ہونے لگی، شدید بھوک کے باعث وہ ان کمزور پرندوں کا معدے کو چھوڑ کر ہر حصہ کھالیتے۔
درحقیقت سمندر میں موجود ہر چیز انہیں خوراک کا ذریعہ محسوس ہونے لگی، سمندری کچھوے، چھوٹی شارک مچھلیاں اور سمندری کائی وغیرہ، مگر زیادہ تر ان کو خوراک سے محروم رہنا پڑتا جیسے 3 دن میں ایک مچھلی یا 2 پرندے ان کے ہاتھ لگتے۔
جوز کہتا ہے کہ میں نے خود سے کہا کہ مجھے بزدل نہیں بننا، میں بہت زیادہ دعائیں کرتا تھا اور میں نے خدا سے صبر کی درخواست کی۔ مگر اس کے ساتھی کا صبر ختم ہوچکا تھا اور وہ بہت زیادہ روتا تھا۔
جوز کے مطابق میں جس حد تک ہوسکتا تھا اس کی مدد کرتا ہے، میں اسے دلاسہ دیتا، میں اسے بتاتا کہ جلد ہمیں بچالیا جائے گا، ہم جلد کسی جزیرے تک پہنچ جائیں گے، مگر کئی بار اس کا رویہ پرتشدد ہوجاتا اور وہ چیخ کر کہتا کہ ہم مرنے والے ہیں۔
جس دن ازیکیوئل کورڈوبا ہلاک ہوا، بارش ہورہی تھی، دونوں ماہی گیر آئس باکس کے اندر موجود تھے اور دعا کر رہے تھے، اس موقع پر ازیکیوئل نے جوز کو کہا کہ وہ اس کی ماں سے مل کر اسے بتائے گا کہ اس کا بیٹا اب خدا کے پاس ہے۔
ساتھی کی موت کے بعد جوز پر حسد کا غلبہ ہوگیا اور اس نے اپنے دوست کی لاش سمندر کی نذر کرنے کے بعد کئی روز تک خودکشی کا سوچا مگر اسے ڈر تھا کہ ایسا کرنے پر اسے جہنم میں جانا پڑے گا۔
جوز نے خوراک کی تلاش پر توجہ مرکوز کی اور سمندر میں تباہ کن ایام کے دوران بھی خدا سے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھا۔
اسے یاد ہے کہ متعدد مال بردار بحری جہاز اس کے پاس سے گزرے، مگر اسے علم نہیں تھا کہ یہ جہاز اصلی تھے یا اس کا خیال، میں نے ان کو سگنل دیا مگر کچھ بھی نہیں ہوا، مجھے لگتا کہ خدا نے فیصلہ کرلیا ہے کہ کونسی کشتی مجھے بچائے گی۔
آخر کار ایک کشتی نے نہیں بلکہ سرزمین نے جوز کی زندگی کو بچایا۔
سمندر میں 438 دن گرنے کے بعد اسے پہاڑیاں نظر آئیں اور اسے لگا کہ وہ بہت قریب ہیں، جس کے بعد اس نے پانی میں چھلانگ لگائی اور اس طرف تیرنے لگا، جس کے بارے میں بعد میں علم ہوا کہ وہ مارشل آئی لینڈز کا حصہ تھیں۔
جوز نے بتایا کہ میں پہلے زمین تک پہنچا اور میری کشتی بعد میں، میں لہروں کو محسوس کررہا تھا، میں ریت کو محسوس کررہا تھا اور میں نے ساحل کو محسوس کیا، میں اتنا خوش تھا کہ ریت پر گر کر بے ہوش ہوگیا، مجھے فکر نہیں تھی کہ میں وہاں مرسکتا ہوں، میں جانتا تھا کہ اب مجھے اپنی مرضی کے خلاف مزید مچھلی نہیں کھانی پڑے گی۔
جوز نے ساحل کے قریب موجود بستی کے لوگوں سے رابطہ کیا، جہاں وہ 29 جنوری 2014 کو پہنچا تھا۔
اس بستی میں کوئی بھی اسپینش زبان نہیں جانتا تھا تو ہاتھوں کے اشاروں سے ایک دوسرے سے بات کی، جوز کو پانی دیا گیا جس کو پی کر طبیعت خراب ہوگئی۔ ایسا ہونے پر رہائشیوں نے میئر کے دفتر سے رابطہ کیا اور اسے ایک بڑی شپنگ بوٹ پر بٹھا کر مارشل آئی لینڈز کے سب سے بڑے اسپتال تک پہنچایا۔
جب وہ اس اسپتال سے باہر نکلا تو اس کا سامنا کیمروں اور صحافیوں سے ہوا۔
جوز نے خود کو ایسا قیدی قرار دیا جو رضا کارانہ طور پر ایک سال سے زیادہ عرصے تک قید میں رہا اور اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے رویے کا مظاہرہ کرے، اس نے کہا کہ میں بہت خوفزدہ تھا، مجھے لوگوں سے ڈر لگ رہا تھا، اتنے عرصے تک تنہا رہنے کے بعد مجھے بات کرنے کے لیے الفاظ سمجھ نہیں آرہے تھے۔
اس حیران کن سفر کی داستان اور جوز کی تصاویر دنیا بھر میں پھیل گئی تھیں اور جب اسے واپس ایل سلواڈور کے لیے طیارے پر روانہ کیا گیا تو صحافی اس کے قریب بیٹھے اس کی تصاویر کھینچنے کی کوشش کررہے تھے۔
جوز کو پروا نہیں تھی کہ صحافیوں کو اس کی کہانی پر یقین ہے یا نہیں، تاہم سائنسدانوں نے بعد میں کہا کہ جوز کا 6 ہزار میل طویل سفر ممکن ہے۔ بعد ازاں جوز نے ایک صحافی جوناتھن فرینکلن کے تعاون سے ایک کتاب 438 ڈیز کو شائع کروایا۔
اپنے ساتھی کا وعدہ پورا کرتے ہوئے اس نے میکسیکو میں اس کی ماں سے ملاقات کی اور پھر ایل سلواڈور میں منتقل ہوگیا، اب وہ سمندر میں داخل ہونے کی ہمت بھی نہیں کرتا اور مچھلیاں نہیں پکڑتا۔ وہ کہتا تھا کہ اب بھی اس کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے اور سمندر کے خواب آ کر اسے پریشان کردیتے ہیں۔