اتوار, جون 30, 2024
اشتہار

The Regime: نرگسیت زدہ آمر خاتون کی عبرت ناک داستان

اشتہار

حیرت انگیز

دنیا میں کئی ایسے ممالک موجود ہیں، جہاں اُن کے سیاسی نظام میں اعلانیہ طورپر آمریت موجود ہے اور کہیں یہ ڈھکے چھپے انداز میں اقتدار سے چمٹی ہوتی ہے۔ اب ایسے ماحول میں تصور کریں، آمریت نافذ کرنے والی ایک بد دماغ عورت ہو تو کیا منظر نامہ بنے گا۔ مذکورہ ویب سیریز "دی رجیم” میں یہی صورتِ حال پیشِ نظر ہے۔

یورپ کے وسط میں ایک فرضی ریاست دکھائی گئی ہے، جہاں اس حکمران عورت نے سب کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اس ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں اس فرضی کہانی پر حقیقت کا گمان گزرتا ہے اور ہمیں چند ممالک کا واضح عکس اس کہانی میں دکھائی دیتا ہے۔ آخر کار فکشن بھی ایک طرح سے سچ کی تلخی کو شیرینی میں ڈبو کر ہی پیش کرتا ہے۔ اس دل چسپ مگر مختصر امریکی ویب سیریز کا تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

- Advertisement -

کہانی /اسکرپٹ

دی رجیم کا مرکزی خیال ایک فرضی ریاست میں نافذ نسائی آمریت ہے۔ یہ سیاسی تمثیلی کہانی ہے، جو بتاتی ہے کہ جبر کا نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ آخر کار اس کو اپنے انجام تک پہنچنا ہی ہوتا ہے۔ اس کہانی میں ریاست پر قابض خاتون آمر”چانسلر ایلینا ورنہم” اپنے عالیشان محل میں براجمان دکھائی دیتی ہے، جہاں وہ اپنی من مانی کرتی ہے۔ وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے علاوہ، ذاتی مراسم اور رشتے داروں سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ ایک حکمران اور ایک عورت، ان دونوں کا واضح فرق مرکزی کردار میں رکھا گیا ہے۔

دی ریجیم

اس خاتون آمر کی حکم رانی کا آخری سال دکھایا گیا ہے، جب اس کی زندگی میں ایک عسکری شخصیت، اس کی حفاظت کے لیے شامل ہوتی ہے۔ دھیرے دھیرے ایک آمریت پر دوسری آمریت غالب آجاتی ہے۔ چانسلر اپنے سیکورٹی سیکشن کے سربراہ کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے اور اس کی منشا کے مطابق سیاسی فیصلے کرتی ہے، جس کے نتیجے میں پہلے شاہی محل میں اور بعد میں پورے ملک میں ایک انتشار پھیلتا ہے، جو آخرکار اس کی آمریت کو نگل لیتا ہے۔

دی ریجیماس کہانی کے خالق امریکی اسکرپٹ رائٹر "ول ٹریسی” ہیں، جن کا لکھنے کا کیریئر ہی ویب سیریز پر مبنی ہے۔ وہ اس سے پہلے کئی عمدہ کہانیاں لکھ کر بے پناہ ستائش اور کئی ایوارڈز وصول کر چکے ہیں۔ ان میں دی مینیو، سکسیشن اور لاسٹ ویک ٹو نائٹ وِد جان الیور شامل ہیں۔اس مختصر امریکی ویب سیریز دی رجیم کی کل چھ اقساط ہیں، جن کو وہ چابک دستی سے قلم بند کرچکے ہیں۔ پوری کہانی مرکزی اور ذیلی کرداروں سے اچھی طرح پیوستہ ہے۔ اس لیے کہیں بھی ناظرین کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوگی۔ انہوں نے فرضی ریاست کے نام پر کہانی میں جس ملک کے ڈھانچے کو پیش کیا ہے، وہ برطانیہ کا ہے۔ کہانی میں آمریت کو بیان کرتے کرتے موجودہ دور کے کئی سیاسی مسائل، اختلافات اور دنیا کے تحفظات کو بھی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ خاص طور پر عالمی برادری میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور امریکا کی دیگر ممالک میں سیاسی مداخلت سمیت متعدد اہم معاملات کو کہانی میں مہارت سے بیان کیا ہے۔

اداکاری

یہ کہنا بجا ہے کہ برطانوی اداکارہ "کیٹ ونسلیٹ” نے اپنی اداکاری سے دی رجیم میں اپنے کردار کو زندۂ جاوید کر دیا۔ اداکارہ نے اپنے کردار کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے مدمقابل بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ایک باصلاحیت یورپی اداکار "میتھیاس شوناٹس” ہیں، جنہوں نے ایک فوجی سربراہ کا کردار نبھایا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اداکار "گیلیوم گیلیان” برطانوی اداکارہ "اینڈریا رائزبورو” اور دیگر فن کاروں نے اپنے کام سے بھرپور انصاف کیا ہے۔ امریکی اداکارہ "مارتھا پلمٹن” نے اپنی مختصر لیکن بہت مضبوط اداکاری سے اسکرین پر "کیٹ ونسلیٹ ” کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ مجموعی طور پر یہ کہانی نرگسیت کا شکار ایک آمر خاتون کی عکاسی کرتی ہے، جس کو کیٹ ونسلیٹ نے اپنی فنی صلاحیتوں سے امر کر دیا۔

ہدایت کاری اور پروڈکشن

اس مختصر ویب سیریز کو دو ہدایت کاروں نے مل کر تخلیق کیا ہے۔ ان میں پہلے برطانوی فلم ساز "اسٹیفن فیریس” جب کہ دوسری نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والی فلم ساز "جیسیکا ہوبز” ہیں۔ دونوں نے مشترکہ طور پر تین تین اقساط کو اپنی ہدایت کاری سے مزین کیا، دونوں اپنے اپنے شعبوں میں جانے پہچانے نام ہیں۔ تکنیکی طورپر بہت کامیابی سے بنائی گئی ویب سیریز دی رجیم کا سب سے کمزور نکتہ یہ ہے کہ ناظرین اس فرضی ریاست کو بخوبی پہچان سکتے ہیں کہ اس پر کس ملک کی چھاپ نظر آرہی ہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ یہ اس کو مزید استعارات اور تمثیلوں کے ساتھ دل چسپ بناتے، مگر ایک بہت اچھی کہانی کی وجہ سے اس واحد خامی کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔

معروف امریکی فلم ساز ادارے "ایچ بی او” (HBO) نے اس ویب سیریز کو پروڈیوس کیا ہے۔ ان کی ٹیم میں اس ویب سیریز کے لکھاری کے علاوہ بھی ایک پوری ٹیم مستند پروڈیوسرز پر مشتمل ہے، جس میں کیٹ ونسلیٹ بھی شامل ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے سینماٹو گرافر "ایلون ایچ کچلر” نے کمال مہارت سے اس کو عکس بند کیا ہے۔ ویب سیریز کی تدوین، اقساط کا ردھم اور عنوانات، لائٹنگ، میوزک، کاسٹیومز اور دیگر لوازمات کا خیال رکھا گیا ہے۔

اس میں جس عمارت کو بطور شاہی محل دکھایا گیا ہے، وہ یورپی ملک آسڑیا کے شہر ویانا کا ایک میوزیم اور اس سے ملحقہ عمارت "شون برون پیلس” ہے۔ اس کا کچھ حصہ برطانیہ میں شوٹ کیا گیا ہے، البتہ مجموعی طور پر پروڈکشن ڈیزائن اچھا ہے۔ بہت تھام جھام نہیں ہے، بس ضروری انتظامات کیے ہیں اور اس ویب سیریز کو تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کے برطانوی پس منظر کی وجہ سے متعلقہ تکنیکی و فنی ہنر مند ہی اس کی تشکیل میں شامل ہوئے ہیں۔ اسی لیے امریکی ویب سیریز ہونے کے باوجود اس پر یورپی سینما کی گہری چھاپ محسوس کی جاسکتی ہے۔

مقبولیت کے نئے زاویے

مارچ میں اس ویب سیریز کی پہلی قسط اسٹریمنگ پورٹل پر جاری کر دی گئی تھی۔ پھر بالترتیب چھ اقساط ریلیز ہوئیں۔ ناظرین اور ناقدین کی طرف سے اس کو پسند کیا جا رہا ہے۔ فلموں اور ویب سیریز کے تبصروں کے لیے جانی پہچانی ویب سائٹ "روٹین ٹماٹوز” پر اس کی مقبولیت کا تناسب ستاون فیصد ہے جب کہ میٹرکٹ ویب سائٹ پر بھی یہی تناسب دیکھا گیا ہے۔ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 6 اعشاریہ ایک فیصد پسندیدگی کا تناسب ہے اور یہ گزرتے دنوں کے ساتھ مزید بڑھ رہا ہے۔ گوگل کے قارئین کی طرف سے پانچ میں سے تین اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ 100 میں سے اس ویب سیریز نے 50 کا ہندسہ عبور کرتے ہوئے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور ناقدین کو بھی متاثرکرنے میں کامیاب رہی ہے۔

آخری بات

آمریت جیسے روایتی موضوع پر ویب سیریز یا فلم بنانا ایک مشکل کام ہے، کیونکہ یہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے، مگر اس ویب سیریز میں جس طرح ایک آمریت اور عورت کو تمثیل بنا کر پیش کیا گیا ہے، اس کے تناظر میں یہ عالمی سیاست میں خواتین کے نرگسیت زدہ کرداروں کی عکاسی کی کوشش ہے۔ اس میں آپ کو اپنی مقامی سیاست کے کسی کردار کی جھلک بھی دکھائی دے سکتی ہے اور کئی عالمی شہرت یافتہ سیاسی اور نیم سیاسی نسائی کرداروں کی چاپ بھی محسوس ہوسکتی ہے۔ اگر آپ عالمی سیاست میں دل چسپی رکھتے ہیں تو یہ ویب سیریز دیکھتے ہوئے آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا۔ ایچ بی او کے آن لائن اسٹریمنگ پورٹل پر یہ ویب سیریز آپ کی توجہ کی منتظر ہے۔

Comments

اہم ترین

خرم سہیل
خرم سہیل
خرّم سہیل صحافی، براڈ کاسٹر، محقّق، فلم کے ناقد اور کئی کتابوں کے مصنّف ہیں۔ ان سے بذریعہ ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

مزید خبریں