سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں سیاسی جماعتوں کو اپنی قیادت سے ہدایت لینے کا وقت دیتے ہوئے سماعت شام 4 بجے تک کا وقفہ دے دیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق ازخود نوٹس کی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کی سماعت جاری ہے۔ فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سیاسی جماعتوں کو اپنی قیادت سے ہدایت لینے کا وقت دیتے ہوئے سماعت میں شام 4 بجے تک کا وقفہ دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سیاسی قائدین مشورہ کرکے الیکشن کی متوقع تاریخ سے آگاہ کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے پنچایتی دماغ میں یہ خیال آیا ہے اور جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ مل بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ طے کریں، جمہوریت کی یہی منشا ہے کہ ایک فریق لچک دکھائے۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اصل طریقہ بھی یہی ہے کہ مل کر فیصلہ کیا جائے۔
جسٹس منصور نے مزید کہا کہ قانونی باتوں کو ایک طرف رکھ کر ملک کا سوچیں، ملک کو آگے رکھ کر سوچیں گے تو حل نکل ہی آئےگا۔
اس موقع پر حکمران اتحادی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سے مشاورت کرنی ہے اس لیے سماعت کل تک ملتوی کی جائے۔
تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کی یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ آج ہی نمٹانا چاہتے ہیں۔ عدالت کا سارا کام ایک اسی مقدمے کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سب لوگ اپنے اپنے لیڈروں سے فون پر رابطہ کرسکتے ہیں، زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیا یہ اتنا آسان معاملہ ہے کہ فون پر مشورہ کریں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر 4 بجے تک وقفہ کرتے ہیں جس کے بعد فیصلہ کریں گے اور سماعت میں 4 بجے تک کا وقفہ دے دیا۔
اس سے قبل ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے رولنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا لازمی ہے اس میں جو رکاوٹیں ہیں وہ تاریخ دینے کے بعد دور کی جاسکتی ہیں۔ کوئی بڑا مسئلہ ہو تو آپ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نظام کو آئین کے تحت مفلوج کرنے کی اجازت نہیں۔ انتخابات کرانا لازم ہے اور اولین ترجیح آئین کے تحت چلنا ہے۔ ہر اسمبلی کا الیکشن 5 سال کے لیے ہوتا ہے۔ یہ قانون حکومت کا آئینی اختیار ہے۔ ملک معاشی مشکل حالات میں ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی بھی آئینی انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا کیونکہ عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں۔ ٹھوس وجوہات کا جائزہ لیکر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے۔ معاشی مشکلات کا ذکر 1988 کے صدارتی ریفرنس میں بھی تھا۔
عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے۔ آرٹیکل 254 لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو۔ قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا۔ حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے لیکن ملک میں پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینرز کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے۔
آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے۔ اگر 90 روز سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کر دے گا۔ معاملہ عدالت میں آئے تو دیکھیں گے۔
ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل شہزاد الہٰی، الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم، حکمران اتحادی جماعتوں کے مشترکہ وکیل فاروق ایچ نائیک، صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے دلائل دیے۔