آج عہدِ حاضر میں، اگر اردو ادب کے دس بڑے اور اہم ناولوں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں جمیلہ ہاشمی کا ناول ”دشتِ سوس“ سرِ فہرست ہوگا۔ تصوف پر مبنی، حسین بن منصور حلاج کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہوا یہ ناول تاریخی طور پر جو اہمیت رکھتا ہے، اس کی اپنی حیثیت ہے، لیکن اردو زبان، شان دار نثر اور کہانی کی بُنت میں یہ ناول اپنے وقت کے کئی بڑے ناولوں سے آگے ہے۔ اس ناول میں اردو زبان، نثر کے پیرائے میں شاعرانہ بلندی کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ناول اس وقت لکھا گیا، جب اردو ادب کے منظر نامے پر قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور انتظار حسین جیسے منجھے ہوئے ادیب ناول نگاری کررہے تھے۔ ایسے بہت سارے مہان ادیبوں کے درمیان جمیلہ ہاشمی نے ”دشتِ سوس“ اور ”تلاشِ بہاراں“ جیسے ناول لکھ کر نمایاں مقام حاصل کیا۔ اس ناول کو سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیا ہے۔ تھیٹر کے لیے یہ ناٹک اسی ناول ”دشتِ سوس“ سے ماخوذ ہے، جس پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
مرکزی خیال/ کہانی
مرکزی خیال اسلامی تاریخ کی مشہور صوفی شخصیت ”حسین بن منصور حلّاج“ کی سوانح کو بیان کرتا ہے۔ تصوف سے وابستہ منصور حلّاج نے اناالحق کا نعرہ لگایا اور معتوب ٹھہرےاور اس کی پاداش میں انہیں سوئے دار جانا پڑا۔ اسلامی تاریخ میں بالخصوص تصوف کے تناظر میں ان کی روداد کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کے لکھے ہوئے ناول کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے دل کو چُھو جانے والی نثر میں اس ناول کو لکھا اور ان کی نثر کا انداز بھی شاعرانہ ہے، جیسے صوفیوں کی شاعری کو نثر میں پرو دیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے تصوف پر مبنی ادب کی پوری تاریخ میں اس ناول کا مقام جداگانہ رہا، کیونکہ اس ناول کا پلاٹ، کردار، زبان و بیان اور اسلوب سب سے مختلف تھا۔ آج بھی قارئین کو یہ ناول مستغرق رکھے ہوئے ہے۔
مذکورہ تھیٹر کا کھیل، جس کا عنوان ناول کے نام پر ہی ہے، اس کی ڈرامائی تشکیل شاہنواز بھٹی کی کاوش ہے۔ ایک ضخیم ناول سے تھیٹر کے منچ کے لیے ان کی ماخوذ کہانی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیے پر محیط ہے۔ سب سے پہلے تو وہ داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور دشتِ سُوس جیسے ناول کو ناٹک کی کہانی میں بدلا۔ ان کی کوشش بہت متاثر کن ہے، مگر جو ناول پڑھ چکے ہیں، وہ ظاہر ہے اس ڈرامائی تشکیل سے متاثر نہیں ہو پائیں گے، کیونکہ اس ناول کی سب سے نادر بات اس میں برتی گئی زبان تھی، جس کو ہدایت کار اور اخذ کنندہ نے ہلکی پھلکی زبان میں منتقل کر دیا، جس کی وجہ سے ناول کا مجموعی تاثر زائل ہو گیا۔
ہدایت کاری
اس کھیل کی ہدایت کاری کے فرائض بھی شاہنواز بھٹی نے انجام دیے، جو طویل عرصے سے تھیٹر اور فلم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس کھیل میں انہوں نے ایک خاص سیاہ پس منظر میں پوری کہانی پیش کی۔ کھیل کی طوالت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کو محسوس ہوا کہ حاضرین اکتاہٹ کا شکار ہوسکتے ہیں، تو انہوں نے ایک گھنٹے کے دورانیے کے بعد دس منٹ کا وقفہ دے دیا، میرے خیال میں یہ ڈرامائی موڑ اس ناٹک کی موت تھی۔ اگر یہ تھیٹر کے عام طور پر معین اصولوں کے مطابق بغیر کسی وقفے کے کہانی کو جاری رہنے دیتے تو دھیرے دھیرے کہانی کا جو تاثر دیکھنے والوں پر طاری ہوا تھا، وہ دم نہ توڑتا۔ اب عالم یہ تھا کہ وقفے کے بعد حسین بن منصور حلّاج کا کردار جب اپنا مونولوگ بول رہا تھا تو حاضرین میں ایک ہلچل تھی، جیسے کہ ابھی تک وقفہ ختم نہ ہوا ہو۔ جمے جمائے تاثر کو وقفہ دے کر ضائع کر دینا ایک تکنیکی غلطی تھی، جو اس کھیل میں کی گئی۔
کھیل پر ڈیزائن کیے گئے کرداروں کی اداکاری کو ایک ہی فریم میں ڈیڑھ گھنٹے تک رکھ کر دکھایا گیا، جس سے اکتاہٹ ہونا فطری عمل تھا۔ اس کھیل کو ایک گھنٹے سے زیادہ کا نہیں ہونا چاہیے تھا اور چند فریم ضرور بدلنے چاہیے تھے۔لائٹنگ کا استعمال بھی کم رکھا گیا۔ لائیو موسیقی کا اہتمام عمدہ تھا، مگر اس کا استعمال بھی انتہائی محدود کیا، جب کہ اس کی بدولت ناٹک میں مزید جان پڑ سکتی تھی۔ ملبوسات کو ارم بشیر نے ڈیزائن کیا، جو کہانی کی کیفیت سے مطابقت رکھتے تھے۔ مجموعی طور پر ایک اچھی کوشش تھی، جس کو سراہا جانا چاہیے۔
اداکاری
اس کھیل میں مرکزی کردار حسین بن منصور حلاج کا تھا، جس کو تھیٹر سے وابستہ نوجوان اداکار اسد شیخ نے عمدگی سے نبھایا۔ افسانوی شہرت کے حامل اس صوفی کردار کو اس کے والد یعنی منصور حلاج کی نسبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کردار پارس مسرور نے نبھایا اور ہمیشہ کی طرح اپنی اداکاری سے متاثر کیا۔ دیگر اداکاروں میں بھی سب نے اپنے اپنے حصّے کے کرداروں کو خوب نبھایا، بالخصوص جنید بغدادی کے کردار میں سرفراز علی، ابو عمر قاضی کے کردار میں زبیر بلوچ، آقائے رازی کے کردار میں مجتبیٰ زیدی، اغول کے کردار میں طوبیٰ نعیم، محمی کے کردار میں عامر نقوی اور ہندی سوداگر کے کردار میں نادر حسین قابل تعریف ہیں۔ باقی سب اداکاروں نے بھی اچھا کام کیا، لیکن مذکورہ ناموں نے اپنے کرداروں سے کہانی میں ایک کیفیت پیدا کر دی جس کا سہرا ہدایت کار کو بھی جاتا ہے۔
آخری بات
یہ کھیل چونکہ آشکارہ آرٹ پروڈکشن کا تھا، جب کہ اس کو نیشنل اکادمی آف پرفارمنگ آرٹس کے ضیا محی الدین تھیٹر ہال میں پیش کیاگیا۔ اب ناپا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مغربی اثر سے نکل کر مقامی رنگ کو اپنی کہانیوں میں جگہ دیں۔ اردو ادب اور دیگر پاکستانی زبانوں کے اندر کہانیوں کے خزانے موجود ہیں، انہیں کوشش کرنا ہو گی، ایسی کوشش جو شاہنواز بھٹی صاحب نے کی۔ اب جنہوں نے جمیلہ ہاشمی کا ناول نہیں پڑھا ہوا، وہ اس کھیل سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، لیکن جو اس ناول کے قاری ہیں، ان کے سامنے ناٹک کے کرداروں سے ناول کا بیانیہ اور کردار بار بار ٹکرائیں گے، جو کہ فطری بات ہے۔ ایسے ناول بہت کم لکھے جاتے ہیں، اس پر ایک سے زائد تھیٹر کے ڈرامے بننے چاہییں۔ پہلی کوشش پر شاہنواز بھٹی اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔
اس ناول کی ابتدا جس منظر سے ہوتی ہے اور قاری اسے پڑھنا شروع کرتا ہے تو ناول کے پہلے باب صدائے ساز میں، دوسرے صفحہ پر ایک کردار کچھ یوں گویا ہے کہ ہم سنتے ہوئے مبہوت ہو جائیں۔ تھیٹر کے لیے ناٹک کی شروعات بھی اسی سے ہوئیں۔ وہ کلام ملاحظہ کیجیے، انہیں پڑھ کر اور سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ پھول ہیں، جن کو ایک صوفی پر نچھاور کیا جا رہا ہے اور کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ کل زندگی کا فلسفہ ہے اور اس ناول اور کہانی کا خلاصہ بھی، جس کو یہاں نظم کیا گیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کی اس شان دار نثر کے ساتھ ساتھ یہ نظم، جس میں کردار کچھ یوں گویا ہے
عشق ایک مزرعِ گلاب ہے
اس کی پگڈنڈیاں ان کے لیے ہیں
جو عاشقوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں
عشق کی نشانیاں توفیق اور مہربانیاں
ان کی منزل ہیں
اور مہجوریاں غم خاموش اور برداشت
کبھی نہ ختم ہونے والا سوز ہمیشگی اور اذیت ناکی
اس کی شان ہے
اس کے سوا باقی سب گم کردہ منزل
جہالت اور وحشت تنہائی
اور بے جادہ گردش ہے
عشق مزرعِ زندگی ہے
(دشتِ سُوس)