نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
ڈریٹن نے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا لیکن وہ ان تینوں کو پہچان گیا تھا۔ یہ اتفاق کی بات تھی کہ جبران اس سے ٹکرا گیا تھا۔ جب وہ تینوں آگے چلے گئے تو ڈریٹن ان سے فاصلہ رکھ کر پیچھا کرنے لگا۔ تینوں ایک کیفے میں گئے، کھانا کھایا اور پھر سمندر کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ وہ دور سے انھیں جاتے دیکھتا رہا، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان کے پیچھے ہرگز نہیں جائے گا بلکہ یہیں پر ان کی واپسی کا انتظار کرے گا۔ یہی سوچ کر وہ ایک دکان کی طرف بڑھا اور وہاں سے ایک بڑے سائز کا تولیہ خریدا، پھر ریت پر آ کر شمسی غسل کے لیے لیٹ گیا، اور آنکھیں موند کر سو گیا۔
۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دور آگے جا کر وہ ٹھہر گئے۔ وہاں دور تک قطاروں میں مختلف اقسام کے تاڑ کے درخت اُگے ہوئے تھے۔ ناریل کے درختوں کی بھی ایک قطار تھی۔ جبران نے کہا کہ ناریل توڑنے چاہیئں، لیکن فیونا کا خیال تھا کہ ناریل ابھی کچے ہیں۔ جبران اور دانیال پتھر لے کر ناریل گرانے کی کوشش کرنے لگے، اور فیونا ایک طرف بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے قیمتی پتھر موتی کے اصل مقام کے بارے میں معلوم کرنے لگی۔ ناریل اتنی اونچائی پر تھے کہ ان کے پھینکے پتھر وہاں تک بہ مشکل پہنچ رہے تھے۔ دانیال نے درخت کو ہلانے کی بھی ناکام کوشش کی۔ دوسری طرف فیونا نے اچانک آنکھیں کھولیں اور خوشی سے چلائی: ’’چھوڑو ناریل ۔۔۔ یہاں آؤ، مجھے پتا چل گیا ہے کہ موتی کہاں چھپا ہے؟‘‘
دونوں دوڑ کر اس کے قریب چلے آئے۔ دانیال نے بے تابی سے احمقانہ سوال کر دیا: ’’کہاں چھپا ہے، کیا ان بڑے ناریل میں سے کسی ایک میں ہے؟‘‘ یہی نہیں بلکہ وہ مڑ کر قریبی درخت کی طرف منھ اٹھا کر دیکھنے بھی لگا۔
فیونا نے منھ بنا کر کہا کہ وہ ایک غار میں چھپایا گیا ہے۔ ’’اوہ نو …‘‘ جبران سر پکڑ کر ریت پر بیٹھ گیا۔ ’’ایک بار پھر ہمیں غار میں جانا پڑے گا اور وہاں زلزلے آئیں گے اور ٹرال جیسی بھیانک مخلوق سے واسطہ پڑے گا۔‘‘
فیونا جھلا کر بولی: ’’اٹھ جاؤ جبران، بہت ڈرپوک ہو تم۔ موتی ایک غار ہی میں ہے لیکن یہ غار زیر آب ہے۔‘‘
’’پانی کے اندر۔‘‘ دانیال اچھل پڑا۔ اس نے آنکھیں نکال کر کہا: ’’ہم پانی کے اندر کوئی غار کیسے تلاش کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس مطلوبہ سامان ہے؟ اور یہ بات بھی ہے کہ میں ایک بار پھر بھیگنا ہرگز نہیں چاہتا۔‘‘
فیونا نے کہا کہ اس کے بارے میں تو تبھی پریشان ہوں گے جب ہم یہ کرنے جائیں گے، وہ قریب ہی ہے، جہاں پتھروں کے ڈھیر پڑ ہیں، بس وہیں پر۔ جبران کہنے لگا: ’’میں تصور کر رہا ہوں کہ بحری ڈاکوؤں کا جہاز ایک خزانہ لے کر ساحل پر آتا ہے اور وہ یہاں کسی غار میں اسے دفن کر دیتے ہیں۔ ویسے مزا آئے گا نا جب ہم خزانہ بھی ڈھونڈ نکالیں گے، جس کے بارے میں جیکس نے بتایا تھا۔‘‘
فیونا نے کہا کہ اس کے خیال میں جیکس نے جھوٹ بولا تھا۔ دانیال سمندر کی بڑی بڑی لہروں کو دیکھ رہا تھا، اسے سونامی کا خیال آ گیا، جس کا اس نے باقی دونوں کے سامنے اظہار بھی کر دیا، لیکن انھوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ فیونا نے کہا: ’’ان پتھروں پر ذرا احتیاط سے چلو، یہ پھسلواں بھی ہیں اور ان کے کنارے بھی تیز ہیں، ویسے مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا سامنا کسی سونامی سے ہوگا۔‘‘
آخر کار وہ پتھروں کے پاس پہنچ گئے، وہاں سے انھیں کیکڑے نکلتے دکھائی دیے، ذرا دیر میں وہ ایک غار کے سامنے پہنچ گئے۔ غار کا دہانہ اس انداز میں ان کے سامنے نمودار ہوا تھا جیسے گہرائی سے اوپر کی طرف ابھرا ہو۔ وہ محتاط ہو کر اندر داخل ہوئے۔ لہریں غار کے اندر جا رہی تھیں تاہم یہ لہریں بہت چھوٹی تھیں۔ فیونا نے کہا: ’’موتی زیر آب ہے اور ایک بڑے دو مونہے سیپی میں پڑا ہے۔‘‘
(جاری ہے)