اتوار, نومبر 17, 2024
اشتہار

پچانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

دانیال نے سرد آہ بھر کر کہا: ’’مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی، کاش کسی آسان سی جگہ پر ہوتا موتی، لیکن ہر بار ایک بہت ہی مشکل جگہ میں قیمتی پتھر چھپا ہوتا ہے۔‘‘

- Advertisement -

اچانک فیونا نے تشویش بھرے لہجے میں دونوں کو خبردار کیا: ’’اگر لہریں اندر جا رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ غار پانی سے بھرا ہو گا، اور اتنا گہرا ہوگا کہ ہم ڈوب سکتے ہیں، اس لیے ہمیں جلدی کرنا ہوگا۔ دانی تم کتنی دیر تک سانس روک سکتے ہو؟‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے ایک لمبی سانس کھینچی اور جھک کر پانی میں سر ڈال دیا۔ جب اس نے سر باہر نکالا تو زور زور سے سانس لینے لگی۔ دانیال نے بتایا کہ وہ صرف تیس سیکنڈ سانس روک سکی ہے۔ اس کے بعد دانیال نے سانس کھینچ کر پانی میں سر ڈال دیا لیکن صرف پچیس سیکنڈ بعد ہی سر نکال واپس نکال لیا۔ جبران سب سے زیادہ ایک منٹ تک سانس روکنے میں کامیاب ہوا۔ فیونا نے کہا: ’’سنو، وہ سخت خول عین میرے پیروں کے نیچے ہے، دیکھو پانی بالکل شفاف ہے اور خول کو دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘

جبران نے بھی کہا کہ اسے بھی نظر آ رہا ہے، اسے یہ زیادہ بڑا نہیں لگا۔ اس نے کہا: ’’میں پانی میں غوطہ لگا کر اسے کھولنے کی کوشش کرتا ہوں، ہو سکتا ہے کہ صدف کے دونوں پرت ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئی ہوں۔‘‘

دانیال نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو خول کو اٹھا کر باہر نکالنا بہتر ہوگا، باہر اسے پتھر پر مار کر توڑا جا سکتا ہے۔ جبران غوطہ لگا کر خول کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن کائی جمنے کی وجہ سے خول پھسلواں ہو چکا تھا۔ اس نے صدفے کو کھولنے کی کوشش کی لیکن اس کی سانس جواب دے گئی تھی، اس لیے اس نے سر باہر نکال لیا۔

’’خول پر کائی جم گئی ہے اس لیے اسے پکڑنے میں دشواری ہو رہی ہے۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا نے کچھ سوچ کر اپنا سینڈل اتار کر اسے دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خول توڑنے کی کوشش کر لے، ہو سکتا ہے کام بن جائے۔‘‘

جبران نے سینڈل لے کر گہری سانس لی اور پھر غوطہ لگا لیا۔ ایسے میں دانیال ہنس کر بولا کہ پانی کے اندر وہ سینڈل استعمال نہیں کر سکے گا، کیوں کہ پانی کے اندر اس کا وزن بہت کم ہو جاتا ہے۔‘‘

’’ہاں… تم نے ٹھیک کہا۔‘‘ وہ مسکرا دی، اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ جبران نے جوتے کی مدد سے خول پر سے کائی ہٹانے کی کوشش کی۔ ایسے میں اس نے کن اکھیوں سے کسی چیز کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا، جس پر وہ خوف زدہ ہو گیا۔ اسے لگا کہ کہیں شارک نہ ہو، اس لیے فوراً اٹھا اور ایک پتھر پر چڑھ کر بولا: ’’نیچے کچھ ہے!‘‘

’’تم نے کیا دیکھا؟‘‘ فیونا نے پوچھا: ’’اور میرا سینڈل کہاں ہے؟‘‘

’’کوئی بڑی اور سیاہ چیز تھی، سینڈل سے خول نہیں کھل سکے گا، ہمیں کوئی اور طریقہ استعمال کرنا پڑے گا۔‘‘

فیونا نے نیچے دیکھا لیکن اسے کچھ نظر نہیں آیا۔ ایسے میں دانیال نے ان دونوں کے پیچھے دیکھا اور چلایا: ’’وہ دیکھو، کوئی چیز ہے وہاں۔‘‘

جبران بھی چیخا: ’’تم دونوں بھی پتھر پر چڑھ جاؤ۔‘‘ دونوں جلدی سے پتھر پر چڑھے اور ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھ گئے۔ فیونا نے ایک بار پھر پوچھا: ’’میرا سینڈل کہاں ہے؟‘‘

جبران کی توجہ سینڈل پر جا ہی نہیں سکی، کیوں کہ اس کے بعد سب کی آنکھوں میں خوف کے سائے تیرنے لگے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ کوئی چیز تیرتی ہوئی ان کی طرف بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سانپ ہو، یا کوئی ٹانگ یا بازو۔

(جاری ہے…)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں