بدھ, جنوری 8, 2025
اشتہار

تلوک چند محرومؔ: اردو شاعری کا ایک خوب صورت نام

اشتہار

حیرت انگیز

تلوک چند محرومؔ کا یہ تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے قارئین کو یہ یاد دلائے گا کہ وقت نے کیسے کیسے نام وروں اور انمول شخصیات کو ہم سے چھین لیا لیکن ان میں سے کئی کی باتیں، یادیں اور بہت سا خزانہ کتابی شکل میں‌ اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔ تلوک چند محرومؔ انہی شخصیات میں سے ایک ہیں جو ادبی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

زینت اللہ جاوید لکھتے ہیں، محرومؔ نے کچھ اپنا تخلّص خود ہی پسند کیا تھا جو ان کے فطری رجحان اور شعری مزاج کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا۔ ”بلاشبہ میری طبعیت شروع ہی سے غم پسند واقع ہوئی ہے۔ اسکول کی کتابوں میں رقت آمیز مضامین پڑھ کر اکثر جماعت ہی میں آنسو نکل آتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بیس پچیس لڑکوں کی کلاس میں جب میں نے پہلی بار فسانۂ آزاد کا ایک مضمون ’محمود کا پھانسی پانا اور اس کے چھوٹے بچے کا بلبلانا‘ پڑھا تو میں اکیلا ہی ایسا طالب علم تھا جس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔

تلوک چند نے تخلص محرومؔ رکھ لیا تھا، لیکن اسے فال نیک نہیں سمجھا۔ چنانچہ کہتے ہیں: ”جب ہائی اسکول میں پہنچا اور "زمانہ” کانپور کے ایڈیٹر منشی دیا نرائن سے خط و کتابت ہوئی تو میں نے ان کو تخلص بدلنے کے متعلق اپنے ارادے سے مطلع کیا اور محرومؔ کے بجائے پروازؔ تخلص تجویز کیا۔ چند رباعیات بھی اس تخلص کے ساتھ اشاعت کے لیے بھیج دیں، لیکن انھوں نے اس تجویز کو رد کردیا۔“

- Advertisement -

ایک وقت ایسا آیا جب وہ اپنے تخلّص محرومؔ پر فخر کرنے لگے۔

پاتے ہیں درد کی تاثیر اسی نام سے شعر
باعثِ فخر ہے محرومؔ مرا نام مجھے

6 جنوری 1966ء کو دہلی میں تلوک چند محروم کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے بیٹے جگن ناتھ آزاد بھی معروف شاعر تھے۔

اردو شاعری کی مختلف اصناف نظم، رباعی، قصیدے اور نوحے لکھنے والے تلوک چند کے شعری مجموعوں کی تعداد آٹھ ہے۔ تلوک چند یکم جولائی 1887ء کو میانوالی کے ایک چھوٹے سے گاؤں موسیٰ نور زمان شاہ میں پیدا ہوئے۔ بعد میں یہ خاندان میانوالی کے ایک اور قصبے عیسیٰ خیل چلا گیا جہاں تلوک چند نے پرائمری اسکول میں داخلہ لے لیا۔ وہ ایک ہونہار طالب علم تھے اور آٹھویں جماعت کے بعد مزید پڑھنے کے لیے بنّوں جانا پڑا جہاں‌ کا ماحول عیسیٰ خیل سے بالکل مختلف تھا۔ تلوک چند غالب اور اقبال سے شروع ہی سے متاثر تھے۔ بنوں میں چار سال کا عرصہ گزارا اور میڑک کا امتحان پاس کرنے کے ساتھ انھوں نے شعری ذوق کی پرورش بھی کی۔ اچھی کتابوں اور شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے تلوک چند خود بھی شعر کہنے لگے۔ بنوں کے بعد تلوک چند اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور سینٹرل ٹریننگ کالج میں داخلہ لیا اور 1908ء میں تلوک چند کو ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک اسکول میں انگریزی کے مضمون کے استاد کی ملازمت مل گئی۔ اس ملازمت کے ساتھ شہر بھی بدلتے رہے اور تلوک چند محروم راولپنڈی کے ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوگئے اور یہ وہ دور تھا جب راولپنڈی میں ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ وہاں کئی بڑے نام لاہور اور دیگر علاقوں سے بھی آتے جاتے اور ادبی محافل میں‌ شریک ہوتے رہتے تھے۔ یوں راولپنڈی میں مختلف شاعروں اور ادیبوں سے تلوک چند کی ملاقاتیں رہتیں لیکن عبدالحمید عدمؔ کا تلوک چند کے گھر تقریباً ہر روز کا آنا جانا تھا۔ 1943ء میں جب تلوک چند اسکول کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو راولپنڈی کے تاریخی تعلیمی ادارے گورڈن کالج میں ملازمت مل گئی جہاں وہ اردو اور فارسی پڑھانے لگے۔ راولپنڈی میں تلوک چند محروم کا ادبی اور شعری ذوق خوب پروان چڑھا اور اس زمانہ میں تلوک چند محروم نے خوب صورت نظمیں کہیں اور کئی مشاعرے پڑھ کر نام بنایا۔ تلوک چند محروم نے بچوں کے ادب کو بھی اہمیت دی اور ان کے لیے متعدد نظمیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں۔

تقسیم سے قبل تلوک چند کی راولپنڈی میں محفلوں میں شرکت اور شعر و ادب کے ساتھ اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزاری معمول تھا کہ اسی زمانہ میں راولپنڈی شہر میں فسادات پھوٹ پڑے۔ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہو چکا اور تلوک چند آریہ محلّہ میں رہتے تھے لیکن وہ گھر انھیں چھوڑنا پڑا اور پھر کسی طرح وہ دہلی پہنچ گئے۔ وہاں تلوک چند کو ایک روزنامہ میں ملازمت مل گئی اور بعد میں بطور پروفیسر 1957ء تک کام کرتے رہے۔ 1953ء میں محروم کو اپنے شہر راولپنڈی آنے کا موقع ملا اور وہ اپنے کالج بھی گئے۔ اپنی خوب صورت یادیں تازہ کیں اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی دہلی لوٹ گئے۔

1962ء میں بھارت کی حکومت نے تلوک چند کو ساہتیہ شاعری کا ایوارڈ دیا۔ انھیں کئی دیگر ادبی اعزازات سے بھی نوازا گیا اور مختلف ادبی تنظیموں‌ کی جانب سے انھیں شعرو ادب میں اپنی تخلیقات اور خدمات پر سراہا گیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں