پاکستان دُنیا کا چوتھا ملک ہے جہاں چاول کی بہترین فصل کاشت کی جاتی ہے۔ مقامی سطح پر بھی گندم کے بعد چاول خوراک کے طور پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زرعی اجناس میں شمار ہوتی ہے۔
ضلع مانسہرہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں مشہور و معروف دیسی گڑلا چاول بھی کاشت کیا جاتا ہے (جو سادے پانی میں دیسی سرخ لوبیہ کے ساتھ حسب ضرورت نمک ڈال کر ابالا جاتا ہے اور دیسی گھی دودھ یا دہی کے ساتھ کھایا جاتا ہے جو کہ بہت لذیذ طاقتور اور صحت بخش ہوتا ہے ۔
اس کا پلاو ٔبھی بنایا جاتا ہے لیکن اول الذکر طریقے کے ساتھ اس کا اپنا ایک الگ مزہ ہوتا ہے ) ہےجو نہ صرف کھانے میں بہت لذیذ ہوتے ہیں بلکہ جہاں کہیں بھی ہزارے وال بستے ہیں وہ یہ چاول بہت ہی پسند کرتے ہیں۔
مانسہرہ میں گڑلا چاول کی پنیری کا عمل جاری ہے جبکہ کسان آج بھی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ سبسڈی کے انتظار میں ہیں۔کسانوں کا کہنا ہے کہ محکمہ زراعت ان کو معلومات فراہم نہیں کرتا اور نہ ہی دھان کی کاشت کے لئے پنجاب کی طرح ہمارے ہاں نہری پانی میسر ہے۔
کسانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کھاد اور ادویات مہنگی کر دی گئی ہیں جبکہ بازار میں سرکاری ریٹ سے بھی مہنگی ملتی ہیں۔ اس لئے وہ منافع تو درکنار اصل قیمت بھی وصول نہیں کر پا رہے۔
کسان برادری نے مطالبہ کیا کہ حکومت زراعت کے شعبے کو ترقی دینے بارے بلند بانگ دعوے کرنے کے بجائے عملی اقدامات پر توجہ دے اور ان کو دھان کی کاشت سے سبسڈی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس فصل کی کاشت میں مزدور وں کو اجرت پر نہیں رکھا جاتا بلکہ مقامی زمینداری امدادِ باہمی کے تحت ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے کھیتوں میں بلامعاوضہ کام کرتے ہیں ۔ اس عمل کو عشر کا نام دیا جاتا ہے ۔
کھیتوں میں بوائی کے لیے بیل زمیندار کے اپنے ہوتے ہیں جس کی زمین پر کام کیا جارہا ہوتا ہے اور کام کرنے والوں کے کھانے اور چائے پانی کا بندوبست بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے، سندھ میں اس عمل کو ونگار کہا جاتا ہے۔