پیر, جون 17, 2024
اشتہار

ویڈیو رپورٹ: دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی عبادت گاہ جہاں صرف خواجہ سرا جاتے ہیں

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی وہ شہر ہے جہاں دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی ایسی عبادت گاہ قائم ہے جہاں صرف خواجہ سرا جاتے ہیں۔

شہر کراچی کے قلب میں واقع ہولی ٹرینیٹی چرچ میں قائم یہ عبادت گاہ اپنی انفرادیت کی بنا پر بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہے، جو صرف خواجہ سراؤں کے لیے بنائی گئی ہے۔

چرچ کس نے قائم کیا؟

خواجہ سراؤں پر گرجا گھروں میں عبادت پر بظاہر کوئی پابندی نہیں تھی، مگر لوگوں کے تضحیک آمیز رویوں سے خواجہ سرا ان مقامات پر جانے سے گریز کیا کرتے تھے، اس چرچ کی بانی اور پادری غزالہ شفیق نے خواجہ سراؤں کی مشکلات کے پیش نظر پہلی بار کسی غیر رسمی چرچ کی بنیاد اپنے گھر کے احاطے میں رکھی ہے۔

- Advertisement -

ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کی زندگی

پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواجہ سرا تشدد اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ اُنھیں جسمانی تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں سماجی بے حسی، انتہا پسندی اور ریاستی عدم تحفظ کی وجہ سے زیادہ تر خواجہ سرا ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

شناخت مل گئی

خواجہ سراؤں کو ایک طویل عرصے کے بعد 2018 میں پارلیمان میں شناخت حاصل ہوئی، انفرادی بنیادی حقوق جیسے قومی شناختی کارڈ حاصل کرنا، پاسپورٹ جاری کرنا اور ووٹ ڈالنے کی اجازت دینا اور سرکاری دستاویزات پر اپنی جنس درج کرنا یہ اختیارات انھیں مل گئے۔

خواجہ سراؤں کی اصل تعداد کتنی ہے؟

2017 کی مردم شماری میں پاکستان میں خواجہ سرا افراد کی تعداد 10 ہزار 313 ہے لیکن خواجہ سراؤں پر کام کرنے والے ادارے ان اعداد و شمار کو نہیں مانتے، دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے تحت تشکیل دی گئی ایک رپورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی رِٹ پٹیشن میں خواجہ سرا برادری کی تعداد 18 لاکھ بتائی گئی ہے۔

خواجہ سراؤں پر لگنے والا سب سے بڑا دھبا

خواجہ سراؤں کی اکثریت معاشرے میں باعزت مقام اور روزگار چاہتی ہے، مگر ہمارا معاشرہ انھیں بہتر زندگی گزارنے کے مواقع فراہم نہیں کرتا، اس لیے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے چوراہوں پر بھیک مانگنا اور ناچ گا کر کمانا ان کی مجبوری ہے۔ خواجہ سراؤں کی اکثریت سیکس ورکر نہیں، لیکن معاشرے کے مردوں کی جانب سے ہی انھیں اس کام کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں جہاں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات عام ہیں، وہاں خواجہ سرا بھی اس سلوک کا شکار ہیں، ہمارے جیسے معاشروں میں عزت کا حصول ایک مذاق سے کم نہیں ہے۔

عبادت کا حق

جس طرح ہر انسان کو مساوی طور پر جینے کا حق حاصل ہے، اسی طرح عبات کرنے کا حق بھی ہر شخص کو حاصل ہے۔ چناں چہ ٹرینیٹی چرچ میں قائم اس عبادت گاہ نے اس کمیونٹی کو اپنی انفرادی شناخت دینے میں بہت مدد کی ہے، جہاں وہ بہ آسانی اپنی عبادت کر سکتے ہیں۔

خواجہ سرا چرچ کی پادری اور بانی غزالہ شفیق کہتی ہیں کہ خواجہ سرا مسیحی بھائیوں کے امتیازی سلوک سے پریشان تھے، اس چرچ کے قیام سے اب وہ با عزت طریقے سے اپنی عبادت کر رہے ہیں۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں