کچھ عرصے کے دوران سوشل میڈیا پر اردو تراجم کے حوالے سے وقتاً فوقتاً ایسی آرا سامنے آتی رہی ہیں کہ ایک تاثر تشکیل پاتا ہے جیسے اردو ترجمہ پڑھنا بہ ذات خود ایک کم تر اور پست ذہن کا کام ہو۔ کچھ لوگ انگریزی زیادہ اچھے سے پڑھ لیتے ہیں اور وہ ایک ادائے دل بری سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو براہ راست انگریزی ہی میں کتاب پڑھنا پسند کرتے ہیں (جیسے اردو ترجمہ پڑھنا ایسا ہو جیسے ہماری زبان میں کچھ پیشوں اور کچھ ذاتوں کو ’نیچ‘ کے درجے پر رکھ دیا گیا ہے)۔ بعض لوگ یہ بھی سمجھ نہیں پاتے کہ جو انگریزی کتاب وہ پڑھ رہے ہیں، وہ انگریزی میں نہیں لکھی گئی، بلکہ خود کسی دوسری زبان سے کیا گیا ترجمہ ہے۔ یعنی مسئلہ ترجمہ نہیں ہوتا، بلکہ انگریزی زبان سے جڑی ’برتری‘ کی غیر منطقی سوچ ہوتی ہے۔ جس نے نفسیات میں گھر کر لیا ہے۔ یہ پوسٹ کولونیل دور کی ایک حقیقت ہے۔ اور قابل ہم دردی بھی۔
اردو ترجمے سے متعلق عام طور سے ترجمے کے کئی مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ مجھے ان میں سے کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے، میں ان میں دو مزید اہم نکتے شامل کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اسے عام قارئین کے لیے سمجھنا تھوڑا سا مشکل ہو، کیوں کہ اس قسم کی باتیں مخصوص اصطلاحات میں کی جاتی ہیں، تاکہ طویل وضاحتی اقتباسات سے بچا جا سکے، ورنہ ایک ہی بات کے متعدد پہلوؤں کو تفصیلاً بیان کرنا پڑتا ہے۔ میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ میری بات سہولت سے سمجھ میں آ سکے۔
ثقافتی ڈسکورس (کلامیہ): تراجم کے ذریعے ثقافتی ڈسکورس کی منتقلی ممکن ہو جاتی ہے۔ یعنی جس زبان میں ادب لکھا گیا ہے، وہ زبان جس معاشرے میں بولی جاتی ہے، اس معاشرے میں وہ زبان کس طرح اور کیوں معنی سازی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ ایک عام جملہ گرائمر کے اصولوں کی پیروی کرتا ہے، لیکن ایک ڈسکورس جملے اور جملوں کے درمیان ربط سے پیدا ہونے والا ایک نیا معنیٰ ہے، جو زیادہ تر سیاسی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی کالونی کے طور پر برصغیر سے متعلق یہ جملہ بہت عام رہا ہے، اور لوگ اسے اپنے مضامین میں کوٹ کرتے رہے ہیں: ’’برصغیر کے عوام ثقافتی اور علمی طور پر پس ماندہ ہیں۔‘‘ اپنے ظاہری معنی میں یہ ایک عام سا جملہ تھا لیکن دراصل یہ کالونیل دور کے ’’آقاؤں‘‘ کا انھیں ’’تہذیب یافتہ‘‘ کرنے کا حیلہ تھا۔ اسی سے جڑا ہوا ایک جملہ اب بھی عام ہے، ’’برصغیر کے عوام آج تک ذہنی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کر سکے‘‘ یہ بھی اپنے ظاہری معنی سے کہیں زیادہ معنی اور سیاسی معنی کا حامل جملہ ہے۔ اس کے ذریعے آج کے پوسٹ کالونیل دور کے ’’آقا‘‘ ان افراد پر حملہ کرتے ہیں جو ’’مقامی سامراج‘‘ کو بے نقاب کرتے ہیں اور وہ جواب میں انھیں کبھی ’’مغرب کے پروردہ‘‘ کبھی وطن اور کبھی دین کے ’’غدار‘‘ قرار دیتے ہیں۔
کسی زبان میں ڈسکورس کی تشکیل کے عمل کو اس زبان کے علم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا، لیکن ادب ایک ایسی شے ہے جو اپنے ترجمے کی صورت میں ایک اجنبی اور غیر متعلقہ ڈسکورس کو بھی مانوس اور متعلقہ محسوس کرا دیتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے معاشرے کے لوگوں کی سوچ کتنی تہہ دار ہے، وہ اپنی زندگی کے لیے رہنما اصول کس گہرائی کے ساتھ تشکیل دیتے ہیں۔ اگر کوئی اس امر سے واقف ہے کہ ہماری زبان اور ہماری زندگی میں ڈسکورسز کا کتنا عمل دخل اور اثر ہے، وہ تراجم کی اس اہمیت کو بھی بہ خوبی سمجھ سکتا ہے۔ چناں چہ ہمارے درمیان اگر کوئی اچھا مترجم موجود ہے تو اسے مختلف ثقافتوں کے درمیان ایک مذاکرات کار کا درجہ حاصل ہے۔
معنی کا فہم: مترجمین کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ لفظ کی بجائے معنی کے فہم تک رسائی کرے؟
یعنی مصنف نے اگر کسی لفظ کو ڈسکورس بنا کر پیش کیا ہے، تو محض اس کا قاموسی معنیٰ (لغت/ڈکشنری) ترجمے کے عمل کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تراجم اسی لیے ہمیں بے مزا محسوس ہوتے ہیں۔ اور لگا کرتا ہے جیسے مصنف نے ادب لکھتے ہوئے بھی اس کی زبان کو اُسی کے محاسن سے پاک رکھا ہے۔
لغت میں مترجم کو متبادل لفظ تو مل جائے گا، لیکن جیسا کہ ساختیات بتاتی ہے کہ معنیٰ کا بھی معنیٰ ہوتا ہے، اگر اس معنی کا فہم حاصل نہیں ہو سکا ہے تو ترجمے کے عمل میں ثقافتی صورت حال ہاتھ سے چھوٹ سکتی ہے۔ ایک عام سے جملے کا ایک عام سا ترجمہ ممکن ہو جاتا ہے، لیکن اس جملے کا ایک معنیٰ تہذیبی اور سیاسی تناظر میں بھی تشکیل پاتا ہے، اس معنی تک پہنچنے کے لیے مترجم کو ڈسکورس کے جدید لسانیاتی اور فلسفیانہ تصور سے شناسائی مددگار ہوتی ہے۔
اوپر میں نے زبان کے محاسن کی بات کی ہے، اس کا اشارہ کلام کے محاسن کی طرف تھا۔ ہم اپنی گفتگوؤں اور تحاریر میں عموماً اپنے آئیڈیاز پیش کیا کرتے ہیں۔ ادب میں ہم اس مقصد کے لیے کلام کے محاسن سے کام لیتے ہیں اور اس طرح اپنے بیان میں معنی کی ایک سے زائد پرتیں تشکیل دیتے ہیں۔ ان ایک سے زائد اور مختلف پرتوں تک رسائی ترجمے کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ اکثر اسی سبب ترجمہ ناقص قرار پاتا ہے، یا مترجم خود کو ایک مشکل صورت حال میں گرفتار پاتا ہے۔
معنی کے فہم کے سلسلے میں ایک بنیادی نکتہ تراجم کے ضمن میں عموماً یہ مذکور کیا جاتا ہے کہ معنیٰ ثقافتی تناظر میں تشکیل پاتا ہے۔ اس بات کا صاف مطلب ہوتا ہے کہ مترجم کے پاس ایک لمحے کے لیے بھی اس تناظر سے رشتہ توڑنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ترجمے کے اندر بھی معنی سازی کا عمل متن کی زبان کے اپنے ثقافتی تناظر میں آگے بڑھتا ہے۔ یعنی ترجمہ اگر کسی فکشن کے متن کا ہے تو صرف کہانی ہی منتقل نہیں ہوتی، اس میں موجود ثقافتی، سماجی، معاشی اور سیاسی نظریات کا ایک پیکج بھی ساتھ منتقل ہوتا ہے۔ مترجم اگر ثقافتی یا تہذیبی تصادم جیسے کسی نظریے پر یقین رکھتا ہو، تو اصل میں وہ نقب زن ہے مترجم نہیں۔ اپنے تصادمی سوچ کے باوجود وہ دوسری زبان کے متون میں دل چسپی لے رہا ہے لیکن ترجمے کے عمل میں اسے پورا پیکج قبول نہیں۔ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ ایک طرف اگر وہ اُس متن کے معنی کے پیکج کو مسترد کرتا ہے تو دوسری طرف عین استرداد کے اُسی لمحے میں وہ معنی کے اس نظام کو منہدم کر کے اپنی پسند کی معنویت تشکیل دے دیتا ہے۔ یعنی معنی کے ایک نظام کا انہدام از خود ایک اور نظام کی تشکیل کے مترادف ہوتا ہے۔ اس طرح تصادمی سوچ ترجمے کے عمل کو مہملیت کا شکار بنا دیتی ہے۔ اس عمل میں موجود ایک حماقت کو صاف دیکھا جا سکتا ہے جو ترجمے کے میدان کو تہذیبوں کے تصادم کا میدان سمجھ کر کارفرما ہوتی ہے۔
اس تمام قضیے کی جو بنیادی الجھن ہے وہ اس سوال کی صورت میں ہے کہ جس زبان کے متن کا ترجمہ ہدف ہے، کیا وہ برتر زبان ہے؟ کیا ترجمہ اس کے آگے محض حاشیائی اہمیت کا حامل ہے؟ میں نے اس پر ڈی کنسٹرکشن کو متعارف کرانے والے فلسفی ژاک دریدا کی فکر کے تناظر میں جتنا غور کیا ہے، اس کی جڑیں میں نے کسی زبان میں مسلسل آنے والی تبدیلی و ترقی کے عمل میں پیوست پائی ہیں۔ کوئی بھی متبادل لفظ ترجمے کی زبان ہی کا لفظ ہونا چاہیے، اس یونیورسل رعایت کے ساتھ کہ زبانیں مشترک الفاظ کا ایک ذخیرہ بھی رکھتی ہیں۔ زبان کو ایک اصطلاح کی منتقلی کے دوران خود کو وسعت آشنا بنانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ جاپانی پروفیسر کے ساتھ ژاک دریدا کی خط و کتابت میں "ڈی کنسٹرکشن” کے جاپانی متبادل پر گفتگو ہوئی اور خود انگریزی و فرانسیسی میں اس اصطلاح کے اندر موجود پیچیدگی زیر بحث آئی، لیکن دریدا کا مؤقف تھا کہ اس کا جاپانی متبادل جاپانی زبان کے اپنے پس منظر میں ہونا چاہیے۔ ایک زبان دوسری پر تسلط قائم نہیں کر سکتی۔ ایک اصطلاح کے لیے دوسری زبان میں موزوں متبادل کی تلاش کی یہ کوشش اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ زبان کے ماہرین کے درمیان یہ معمول کی ایک سرگرمی ہے۔ زبان میں اگر ترقی کا عمل جاری ہے تو وہ دیگر زبانوں کے ثقافتی پیکجز سے نہ تو گبھراتی ہے نہ اس کے آگے خود کو اس کا "دوسرا” محسوس کرتی ہے۔