زمین کے کسی بھی دور دراز کے مقام پر ایک گھنٹے میں پہنچنا ناممکن سی بات لگتی ہے، تاہم اب ایک اسپیس کمپنی اسے ممکن بنانے کی کوششوں میں ہے۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک کمپنی اپنے طیاروں میں لوگوں کو زمین پر کسی بھی مقام پر ایک گھنٹے میں پہنچانے کی خواہشمند ہے۔
اس طیارے کو خلائی طیارے کی طرز پر بنانے پر غور کیا جارہا ہے، ایک خلائی طیارہ (اسپیس پلین) کسی عام طیارے جیسا ہی ہوتا ہے بس اس کا درمیانی حصہ مختلف ہوتا ہے۔
ایک مخصوص بلندی یعنی زمین کے ماحول اور بالائی خلا کی سرحد پر پائلٹ راکٹ بوسٹرز کو ہٹ کر کے طیارے کو 9 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار یا آواز کی رفتار سے 12 گنا تیزی سے اڑاتا ہے۔
یہ طیارہ اس رفتار سے 15 منٹ تک سفر کرتا ہے اور پھر زمین کے ماحول میں تیر کر خود کو سست کرتا ہے اور کسی ایئرپورٹ پر لینڈ کرجاتا ہے۔ وینس ایرو اسپیس کارپوریشن اسی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ایسے ہائپر سونک اسپیس طیارے کو تیار کرنا چاہتی ہے جو لوگوں کو ایک گھنٹے میں ایک سے دوسری جگہ تک پہنچا سکے۔
اس کمپنی کی بنیاد ورجین آربٹ ایل ایل سی کے 2 سابق ملازمین نے رکھی تھی جن میں سے ایک سارہ ڈگلبی اور ان کے شوہر اینڈریو شامل ہیں۔
اس جوڑے کو اس تیز ترین سفر کا خیال اس وقت آیا جب سارہ کو اپنی دادی کی 95 ویں سالگرہ میں شرکت کا موقع نہ مل سکا کیونکہ جاپان سے لاس اینجلس کی پرواز بہت طویل ہے، تو انہوں نے جون 2020 میں ورجین سے اپنی ملازمتوں کو چھوڑا اور اپنا خلائی طیارہ تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
اب اس کمپنی میں 15 افراد کام کررہے ہیں جن میں سے بیشتر خلائی صنعت سے ہی تعلق رکھتے ہیں جبکہ انہیں مختلف کمپنیوں سے سرمایہ بھی ملا ہے۔ اینڈریو ڈگلبی نے اعتراف کیا کہ ہر چند دہائیوں میں انسانوں کی جانب سے اس طرح کی کوشش کی جاتی ہے، مگر اس میں کتنی کامیابی ملے گی، اس کا علم نہیں۔
اس جوڑے کے مطابق ان کا اسپیس پلین ماضی کی کوششوں سے مختلف ہے کیونکہ اس میں زیادہ مؤثر انجن موجود ہے جس سے اسے وہ اضافی بوجھ سنبھالنے میں مدد ملے گی جو ونگز، لینڈنگ گیئر اور جیٹ انجنوں سے کسی طیارے پر لینڈنگ اور ٹیک آف کے دوران پڑتا ہے۔
ناسا کے ایک سابق خلاباز جیک فشر نے اس کمپنی کے منصوبے پر نظر ثانی کے بعد بتایا کہ ابتدائی تیز رفتار آپ کو نشست پر پیچھے دھکیل دے گی مگر جلد ہی یہ ختم ہوجائے گا کیونکہ آپ اتنی تیزی سے سفر کریں گے کہ کچھ محسوس ہی نہیں ہوگا۔
مگر یہ منصوبہ جلد حقیقی شکل اختیار نہیں کرسکتا کیونکہ طیارے کی ساخت پر ابھی کام جاری ہے اور کمپنی کی جانب سے 3 اسکیل ماڈلز کی آزمائش آئندہ چند ماہ میں کی جائے گی۔
اس کمپنی کے خیال میں پراجیکٹ کو مکمل ہونے میں ایک دہائی کا عرصہ لگ سکتا ہے۔