پشاور: آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کے افغانستان فرار اور آرمی پبلک اسکول پشاور و باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر حملہ کے تناظر میں قبائیلی علاقوں سے متصل پاک افغان سرحد کو سیل کرنے اور مرحلہ وار منظم سرحد بنانے کی غرض سے پہلے مرحلے میں یکم جون سے پاک افغان سرحد طورخم باڈرکو آمدورفت کے لئے پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات کے ساتھ مشروط کیا جارہا ہے ۔
ذرائع کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے باعث پاک فوج نے قبائلی علاقوں کو انتہاپسندوں سے پاک کرنے کا مشکل کام تو مکمل کر لیا ہے لکین دہشت گرد پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کامیبابیوں کو مشکوک بنانے کی غرض سے پاک افغان سرحد خصوصا طورخم کے راستے بغیر دستاویز کے دیگر عام افغانوں کی آڑ میں داخل ہونا شروع کردیا تھا جس کے ثبوت باقاعدہ افغان حکومت کو حوالے کئے گئے لیکن افغان حکومت کی جانب سے کاروائی نہ ہونے پر حکومت پاکستان نے اپنی سرحد کو محفوظ بنانے اور پاکستان میں افغانستان کے راستے داخلے کو منظم بنانے کی غرض سے پہلے مرحلے پر طورخم کے مقام پر بھاڑ لگانا شروع کی اور جب ڈھائی کلومیٹر کے ایریا میں باڑھ لگ گئی تو افغان حکومت نے اس کو متازعہ بنانا شروع کردیا جسکے نتیجے میں چار دن تک سرحد بند رہی ۔
بالاخر مذاکرات کے بعد جہاں سرحد کو کھولا گیا وہی باڑھ کو سرحد کے چار کلومیٹر کی رینج میں مکمل کر لیا گیا ہے اور اب طورخم سرحد سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر شہید موڑ کے علاقے میں امیگریشن آفس قائم کردیا گیا ہے جہاں سے پاکستان میں داخلے کے لئے پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویز ضروری ہوں گے بصورت دیگر واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا۔
ذرائع کا بتانا ہےکہ خیبر ایجنسی کا شنواری قبیلہ پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف مقامی قبائلی معاہدے کے مطابق اپنے علاقوں تک راہداری کے حقوق حاصل کرسکے گے، زرائع کے مطابق طورخم سرحد کا ماڈل قبائلی علاقوں سے متصل دیگر سات پاکستان کے داخلی راستوں پر مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا، ان راستوں میں ارندوں، غلام خان، ناوا پاس، کلاچی ، گرسال شامل ہیں ۔