پیر, اکتوبر 7, 2024
اشتہار

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : فل کورٹ سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل میں فل کورٹ کی درخواست پر محفوظ کرلیا ، محفوظ فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صدیقی نے ملٹری کورٹس کے معاملے پر فل کورٹ کا مطالبہ کیا ہے،ہم جواد ایس خواجہ کے وکیل کو سنیں گے، جس پر وکیل درخواست گزار خواجہ حسین احمد نے بتایا کہ میرے موکل سابق چیف جسٹس ہیں، میرےموکل کی ہدایت ہے عدالت میرے ساتھ برتاؤ عام شہری کی طرح کرے۔

- Advertisement -

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سابق چیف جسٹس جوادایس خواجہ گوشہ نشین انسان ہیں ، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی آئینی درخواست غیر سیاسی ہے، کیا فیصل صدیقی صاحب چھپ رہےہیں تو وکیل جوادایس خواجہ نے کہا کہ میرے موکل چاہتے ہیں ان کے نام کے ساتھ چیف جسٹس نہ لگایا جائے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اسی وجہ سے ان کی عزت کرتے ہیں۔

فیصل صدیقی نے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواست پر دلائل شروع کر دئیے اور کہا حکومت کی جانب سےبینچ پر جو اعتراضات اٹھائےگئےہماری درخواست کا اس سےتعلق نہیں ، پہلے میں واضح کروں گاکہ ہماری درخواست الگ کیوں ہے۔

سپریم کورٹ نے پہلے فل کورٹ تشکیل دینے سے متعلق درخواستوں کو سننے کا فیصلہ کرلیا ، فیصل صدیقی نے بتایا کہ ہم نےفل کورٹ تشکیل دینےمیں 3وجوہات بیان کیں، پرویز مشرف بھی فل کورٹ فیصلے کی مخالفت نہ کر سکا ، جسٹس منصور علی شاہ جسٹس یحییٰ آفریدی نےبھی فل کورٹ تشکیل دینے کی بات کی۔

فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل بتا چکے ہیں کہ کسی شخص کو سزائے موت یا عمر قید نہیں ہو گی اور اٹارنی جنرل یقین دہانی کرا چکے عدالت کے علم میں لائے بغیر ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہو گا، فیصل صدیقی

انھوں نے مزید کہا کہ سیاستدانوں اور وزرا کی جانب سے عدالتی فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے گئے، جب اداروں کے درمیان تصادم کا خطرہ ہو تو فل کورٹ بنانی چاہئے، فل کورٹ کا بنایا جانا ضروری ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کچھ ججز نے کیس سننے سے معذرت کی ہے تو فل کورٹ کیسے بنائیں تو فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اس کا جواب ایف بی علی کیس میں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ دونوں بنیادی سوالات پر اٹارنی جنرل کا مؤقف ابھی سامنے آنا ہے، فل کورٹ درخواست بہترین لکھی گئی ہےاس لئے دلائل سننا چاہیں گے۔

جس پروکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کی درخواست کا بینچ پر اعتراض سے کوئی تعلق نہیں، فل کورٹ کی درخواست کا مقصد موجودہ بینچ پر عدم اعتماد نہیں، حکومتی وزرانے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ انتخابات کیس میں بھی حکومت نےفیصلے پر تاحال عمل نہیں کیا، فل کورٹ فیصلے کو فوجی آمروں نے بھی ہمیشہ تسلیم کیا ہے، انتظامیہ کے ساتھ مقابلہ پوری سپریم کورٹ ہی کرسکتی ہے،دنیا بھر میں عدلیہ اور حکومت کی محاذ آرائی ہوتی رہی ہے، دیگرممالک میں بھی عدلیہ نے سامنے آکرانتظامیہ کاسامنا کیا تھا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ فل کورٹ سے مقدمہ تاخیر کا شکار نہیں ہوگا، پہلے تو علم ہی نہیں تھا کہ ملزمان کہاں ہیں، ملزمان کے سامنے آنے پر معمولی تاخیر بھی قابل قبول ہے،اٹارنی جنرل ٹرائل شروع نہ ہونے،سزائے موت یالمبی قید نہ ہونے کی یقین دہانی کرا چکے۔

فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ عدالت فل کورٹ کیلئےمعاملہ چیف جسٹس کوبھجوا کر ٹرائل پرحکم امتناع دے سکتی ہے، جو ججز بینچ سے علیحدہ ہوچکے ان کے سوا دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایاجائے، یہ مقدمہ بنیادی حقوق کی وجہ سے بہت اہم ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کے لیے یہ پہلی درخواست آئی ہے، ہم باقی درخواست گزاروں کا موقف بھی سننا چاہتے ہیں۔

درخواست گزار اعتزاز احسن روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ یہ سب میرے لیے حیران کن ہے کہ اس مرحلے پر بینچ کی تشکیل کو چیلنج کیا گیا، ہم سپریم کورٹ کی تکریم کے لیے جیلوں میں گئے، اعتزاز احسن

اعتزاز احسن نے فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا کی مشروط حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بینچ کی ازسرنو تشکیل سے مقدمہ تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے، ملزمان کو عدالتی تحویل میں جیل بھیجا جائے توفل کورٹ پر آمادہ ہوں، پہلے ہم نے خود فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سینئر وکلاعدلیہ میں اسٹیک ہولڈر ہیں،عدلیہ اور بینچ پر مکمل اعتماد ہے، ضیاالحق دور میں بھی عدلیہ کیخلاف اقدامات پر احتجاج کیا اور جیل گیا، یہ سن کر تکلیف ہوئی کہ دو ججز نے کہا وہ بینچ کو تسلیم ہی نہیں کرتے ، عدلیہ کو بینچ کے تنازعات پر اسٹینڈ لینا ہوگا، فوجی حراست میں موجود ملزمان کیخلاف ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔

دوران سماعت لطیف کھوسہ نے کہا کہ فوجی تحویل میں ملزمان کی حالت اچھی نہیں ہے، ایک مجسٹریٹ نے ملزم کا اعترافی بیان لینے سے بھی انکار کیا تھا، مجسٹریٹ نے کہا ملزم تو اپنے پاؤں پر کھڑا تک نہیں ہوسکتا بیان کیسےلوں۔

وکیل لطیف کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ عوامی اہمیت کا حامل مقدمہ ہے، چھ رکنی بینچ بھی فل کورٹ ہی ہے، وزارت دفاع نے تو چیف جسٹس سمیت 2ججز پر بھی اعتراض کیا ہے، عدالتوں کا مذاق بنایا جا رہا ہے، مناسب ہوگا کہ موجودہ بینچ خود ہی مقدمہ کی سماعت جاری رکھے۔

اعتزاز احسن نے دلائل میں کہا کہ ہمیں اس بینچ پو مکمل اعتماد ہے ،عدالت نے تمام دستیاب ججوں کو بینچ میں شامل کیا تھا،  2ججز کے اٹھ جانے کے بعد یہ ایک طرح کا فل کورٹ بینچ ہی ہے، میں خود1980 میں دیگر وکلاکے ساتھ گرفتار ہواتھا، مارشل لاکے خلاف کھڑے ہوئے تھے دو ججز اٹھنے سے کوئی تنازع نہیں ، 102افراد کو ملٹری کے بجائے جوڈیشل حراست میں رکھا جائے۔

درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ ، سپریم کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے بھی فل کورٹ کی مخالفت کر دی۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اعتزاز احسن کی حمایت کرتا ہوں کہ اس کیس کا جلد فیصلہ کیا جائے، سلمان اکرم راجہ

سپریم کورٹ نے فل کورٹ سےمتعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بینچ جلد کسی رائےپر پہنچ گیا تو 15منٹ میں آگاہ کر دیا جائے گا، کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو کل مقدمے کی سماعت کریں گے۔

بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی، سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ فل کورٹ کی درخواست پر محفوظ فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں