تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

3 طلاقیں دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل بھارتی لوک سبھا میں ایک بار پھر منظور

نئی دہلی: بھارتی لوک سبھا میں ایک ہی وقت میں 3 طلاقیں دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل ایک مرتبہ پھر کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، تین طلاقوں پر سزا کا بل اب منظوری کے لیے راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا۔

بھارت کی لوک سبھا میں ایک ہی وقت میں 3 طلاق دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل ایک مرتبہ پھر کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کانگریس اور ترینا مول کانگریس نے بل پر رائے شماری کے بعد واک آؤٹ کیا۔

بل کے حق میں 302 اور مخالفت میں 78 ووٹ دیے گئے۔ بل پر رائے شماری کے خلاف جنتا دل یونائیٹڈ نے مؤقف اپنایا کہ ایسے قانون سے معاشرے میں اعتماد کی کمی پیدا ہوگی۔

تین طلاقوں پر سزا کا بل اب منظوری کے لیے راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا تاہم رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں ترامیم کی منظوری میں حکومت کا ساتھ دینے والے اراکین نے بھی کہا ہے کہ وہ بِل کی مخالفت کریں گے۔ جنتا دل پارٹی اور کانگریس کے 2 ارکان نے پہلے ہی راجیہ سبھا میں بل پر اعتراض اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

نئے قانون میں 3 طلاقیں ایک ساتھ دینے والے مسلمان مردوں کو جیل کی سزا شامل کی گئی ہے جسے اپوزیشن نے ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے تجویز دی ہے کہ اسے مزید جائزے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے، تاہم حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ مذکورہ بل صنفی امتیاز کے فروغ کے لیے اہم ہے۔ حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ یہ وزیر اعظم کے نئے مقصد ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ کا حصہ ہے۔

بل متعارف کرواتے ہوئے یونین وزیر روی شنکر پرساد کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ملائیشیا سمیت دنیا کے 20 مسلم ممالک میں تین طلاقوں پر پابندی ہے تو سیکولر بھارت میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ ان کا کہنا تھا کہ تین طلاقوں پر سزا سے مسئلہ کیا ہے؟ کوئی اس وقت اعتراض نہیں اٹھاتا جب ہندوؤں اور مسلمانوں کو جہیز کے قانون یا گھریلو تشدد ایکٹ کے تحت قید کی سزا دی جاتی ہے۔

روی شنکر پرساد نے کہا کہ 2 برس قبل سپریم کورٹ سے غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیے جانے کے باوجود تین طلاقوں کا رجحان آج بھی موجود ہے، اس وقت سے لے کر اب تک ایسے کئی کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔

لوک سبھا میں کانگریس رہنما کے سریش نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ بل کے تعارف کو خفیہ رکھا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ شب حکومت نے تین طلاقوں پر سزا کے بل کو آج کے ایجنڈے میں رکھا اور قومی میڈیکل کمیشن بل اور ڈی این اے ٹیکنالوجی ریگولیشن بل کو کسی کے علم میں لائے بغیر منسوخ کردیا، وہ اتنا خفیہ کیوں رکھا جارہا ہے‘۔

روی شنکر پرساد نے کہا کہ اپوزیشن اس مسئلے کو سیاست زدہ کر رہی ہے، یہ انصاف، انسانیت اور خواتین کے حقوق کا مسئلہ ہے، ہم اپنی مسلمان بہنوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔

یاد رہے لوک سبھا میں شادی سے متعلق مسلمان خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بل وزیر قانون روی شنکر پرساد نے گزشتہ سال 21 جون کو پیش کیا تھا۔ مذکورہ بل کے تحت ایک ہی وقت میں 3 مرتبہ طلاق دینا قابل سزا جرم ہے۔ بل کے تحت ایک ساتھ تین طلاق دینے والے شخص کو 3 سال قید کی سزا ہوگی اور خاتون یا اس کے اہل خانہ کی جانب سے شکایت درج کروانے پر جرم کو قابل سماعت قرار دیا جائے گا۔

ملزم کو مجسٹریٹ کی جانب سے ضمانت دی جاسکتی ہے، جو صرف متاثرہ خاتون کا بیان سننے کے بعد اگر مجسٹریٹ مطمئن ہو تو مناسب وجوہات کی بنیاد پر ضمانت دے سکتا ہے۔ بل کے تحت متاثرہ خاتون کی درخواست پر مجسٹریٹ کی جانب سے جرم کا دائرہ کار بھی مرتب کیا جاسکتا ہے۔ متاثرہ خاتون کو شوہر کی جانب سے اپنے اور بچوں کے لیے مالی وظیفہ دیا جائے گا۔

بل کے مطابق جس خاتون کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی گئی ہوں وہ اپنے چھوٹے بچوں کی کسٹڈی حاصل کر سکتی ہے۔ اس بل کو گزشتہ برس لوک سبھا میں ترامیم کے ساتھ منظور کرلیا گیا تھا تاہم انتخابات کے باعث قانون سازی کا عمل رک گیا تھا۔

اس سے قبل سنہ 2017 میں بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں مسلمان مردوں کی جانب سے ایک ہی وقت میں 3 طلاق کے عمل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ بعد ازاں عدالتی فیصلے کو آئین کا حصہ بنانے کے لیے اقدامات شروع کیے گئے تھے اور اس سلسلے میں قانون سازی کرتے ہوئے پارلیمان میں بل پیش کرنے کی تیاریاں شروع کی گئی تھیں۔

2017 ہی میں اس سلسلے میں ایک بل لوک سبھا سے منظور کیا گیا تھا لیکن اپوزیشن جماعتوں کے شدید احتجاج کے بعد اس بل کو ترمیم کے بعد دوبارہ ایوان زیریں میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

Comments

- Advertisement -