ہفتہ, جون 7, 2025
اشتہار

ٹرمپ نے تجارتی جنگ اور فلاحی ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟

اشتہار

حیرت انگیز

چند دن قبل جب میں نے ’’دنیا کیسے چلتی ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر مضمون تحریر کیا، تو اُس وقت تک مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ سماجی تنقید کے معروف امریکی دانش ور نوم چومسکی کی ایک کتاب بھی How the World Works (2011) کے عنوان سے چھپ چکی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ان کے مختلف انٹرویوز، لیکچرز اور تحریروں کا مجموعہ ہے، جس میں انھوں نے عالمی سیاست اور معیشت، میڈیا، اور امریکی خارجہ پالیسی پر زبردست تنقید کی ہے۔

میں، یہاں اس کتاب کے مندرجہ جات پر بات کروں گا، جو کہ 4 حصوں پر مشتمل ہیں۔ نمبر ایک: انکل سام سچ میں کیا چاہتے ہیں؟ نمبر دو: چند خوش حال باقی بے چین۔ نمبر تین: راز، جھوٹ اور جمہوریت۔ اور نمبر چار: مشترکہ خیر۔

ایک نظر اس کے خلاصے پر ڈالتے ہیں۔ چومسکی نے کتاب میں امریکی خارجہ پالیسی کے تاریخی اور موجودہ کردار پر بحث کی ہے، جو دراصل ایک عالمی سامراجی ایجنڈا ہے۔ امریکا نے سرد جنگ کے بعد سے اپنی عالمی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے فوجی مداخلت، اقتصادی دباؤ، اور سیاسی اثر و رسوخ کا بے دریغ استعمال کیا۔ چومسکی ویتنام جنگ، لاطینی امریکا میں مداخلت، اور مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، یہ پالیسیاں اکثر ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر ہوتی ہیں لیکن ان کا اصل مقصد اقتصادی مفادات اور عالمی کنٹرول ہوتا ہے۔ چومسکی کے مطابق امریکی سامراج دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی ہلاکتوں اور عدم استحکام کا باعث بنا۔ امریکی مداخلت کے نتیجے میں دنیا کے 90 سے زائد ممالک متاثر ہوئے، سرد جنگ کے بعد امریکی پالیسیوں نے عالمی عدم مساوات کو بڑھایا، اور ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ دراصل عالمی بالادستی کی حکمت عملی ہے۔

نوم چومسکی نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور نجکاری کے اثرات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ذریعے نجکاری کے پروگراموں نے ترقی پذیر ممالک میں غربت اور بے روزگاری کو بڑھایا۔ چومسکی کے مطابق نجکاری کا مقصد عوامی دولت کو چند امیروں کے ہاتھوں میں منتقل کرنا ہے، یہ ایک ایسی معاشی پالیسی ہے جو چند لوگوں کے مفادات کو تحفظ دیتی ہے اور عالمی سطح پر عدم مساوات کو بڑھاتی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ نجکاری سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے، عالمی مالیاتی ادارے ترقی پذیر ممالک پر اپنی پالیسیاں مسلط کرتے ہیں، اور سرمایہ داری نے بھوک، بے روزگاری، اور سماجی ناانصافی کو بڑھاوا دیا۔

چومسکی نے کتاب میں پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہونے والے میڈیا کے کردار پر بھی روشنی ڈالی، اور بتایا کہ میڈیا کارپوریٹ اور حکومتی مفادات کی تابع داری کرتا ہے، حقائق کو مسخ کرتا ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے معلومات کو فلٹر کرتا ہے۔ وہ امریکی میڈیا کی مثال دیتے ہیں کہ کس طرح یہ امریکی خارجہ پالیسی کی حمایت کرتا ہے اور تنقیدی آوازوں کو دباتا ہے۔ میڈیا عوام کو سچائی سے دور رکھنے کے لیے بیانیہ بنایا جاتا ہے۔

اب میں اس کتاب کے چند حصوں کے اہم مباحث آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اس کتاب کے پہلے حصے کا بہت دل چسپ عنوان ہے: ’انکل سام دراصل کیا چاہتا ہے؟‘‘ نوم چومسکی نے اس حصے میں ’اپنے دائرہ کار کا تحفظ‘ کی ذیلی سرخی جماتے ہوئے لکھا ہے: دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب بیش تر صنعتی حریف جنگ کی وجہ سے کمزور یا تباہ ہو گئے، امریکا کی پیداوار میں تین گنا اضافہ ہو گیا، امریکا کے پاس دنیا کی 50 فی صد دولت آ گئی، اس نے دونوں سمندروں کے دونوں کناروں پر بے مثال تاریخی کنٹرول حاصل کر لیا۔ امریکی منصوبہ سازوں نے دنیا کو اپنے وژن کے مطابق تشکیل دینا شروع کیا، نیشنل سیکیورٹی کونسل میمورینڈم 68 (1950) ایک دستاویز ہے، اس میں پال نٹز نے لکھا کہ سوویت یونین کو کم زور کرنے کے لیے اس کے اندر تباہی کے بیج بوئے جائیں، اس دستاویز میں جو پالیسیاں تجویز کی گئین، ان پر عمل کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ فوجی اخراجات میں بھاری اضافہ ہو اور سوشل سروسز کے اخراجات میں کٹوتی ہو۔ اور اس کے علاوہ ’’حد سے زیادہ رواداری‘‘ کا رویہ بھی ترک کیا جائے تاکہ ملک کے اندر اختلاف رائے کو زیادہ اجازت نہ ملے۔ یہاں نوم چومسکی نے لکھا ہے کہ سوویت یونین کو کمزور کرنے کے لیے امریکا نے مشرقی یورپ میں نازی جرمنی کے ساتھ اتحاد کر کے بدترین مجرموں پر مشتمل ایک جاسوس نیٹ ورک بنایا، اس نیٹ ورک کے آپریشنز لاطینی امریکا تک بھی پھیل گئے تھے۔

اب میں اس کتاب کے اُس حصے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے میں نے اس کتاب کو چُنا ہے کہ اس کا تعارف آپ کے سامنے پیش کروں۔ یہاں نوم چومسکی نے ذیلی عنوان ’’انتہائی لبرل نقطہ نظر‘‘ کے تحت امریکا کی امن پسندی پر گہرا طنز کیا ہے۔ جارج کینن کو ’سب سے نمایاں امن پسند‘ لکھتے ہوئے ان کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ کینن نے 1950 تک اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پلاننگ اسٹاف کی سربراہی کی، وہ امریکی منصوبہ سازوں میں سب سے ذہین اور واضح سوچ رکھتے تھے۔ اسی کینن نے 1948 میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پلاننگ اسٹاف کے لیے ایک دستاویز لکھی جس کا عنوان ہے ’’پالیسی پلاننگ اسٹڈی 23‘‘۔ یہ ایک انتہائی خفیہ دستاویز تھی۔

کینن نے اس میں لکھا: ’’ہمارے پاس دنیا کی تقریباً 50 فی صد دولت ہے، لیکن دنیا کی آبادی کا ہم صرف 6.3 فی صد ہیں، اس صورت حال میں، ہم حسد اور ناراضی کا نشانہ بننے سے نہیں بچ سکتے۔ اس لیے ہمارا اصل کام آنے والے عرصے میں یہ ہے کہ ہم تعلقات کا ایک ایسا سانچہ تیار کریں جس کی مدد سے ہم اس عدم مساوات کی حالت کو برقرار رکھ سکیں۔ اس کے لیے ہمیں ہر قسم کی جذباتی سوچ اور خیالی پلاؤ سے چھٹکارا پانا ہوگا؛ ہمیں صرف اس بات پر توجہ مرکوز رکھنی ہوگی کہ ہمارے فوری قومی مقاصد کیا ہیں۔ ہمیں انسانی حقوق، لوگوں کے معیار زندگی بہتر بنانے اور جمہوریت کو فروغ دینے جیسے مبہم اور غیر حقیقی مقاصد کی تکرار بند کرنی ہوگی۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں سیدھے سادھے طاقت کے تصورات کے مطابق معاملات کرنے ہوں گے۔ ہم اُس وقت نظریاتی نعروں کو جتنا کم توجہ دیں، اتنا ہی بہتر ہے۔‘‘

کیا آپ نے نوٹ کیا کہ امریکا کے لیے پالیسی تیار کرنے والوں کے لیے 75 سال قبل لکھی گئی اس خفیہ دستاویز میں وہ حیرت انگیز پالیسی ڈیزائن کی گئی ہے جس پر آج اتنے عرصے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمل شروع کر دیا ہے۔ اس پالیسی کو اس سے قبل کسی امریکی صدر نے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ لیکن ٹرمپ نے دوسری مدت سنبھالتے ہی دیگر ممالک کے جاری امدادی پروگرام بند کر دیے۔ ٹرمپ نے اس دستاویز کے عین مطابق ’امریکہ فرسٹ‘ پالیسی شروع کی اور ’یو ایس ایڈ‘ جیسا بڑا اور وسیع ادارہ بند کر دیا۔ پاکستان میں بھی ٹی بی پر قابو پانے کے لیے سب سے بڑی مدد ’یو ایس ایڈ‘ کی طرف سے آ رہی تھی۔ یہ ادارہ پاکستان میں بھی جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے فنڈنگ کرتا تھا۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے اقدام سے دنیا بھر میں اربوں ڈالر کے امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبے رک گئے، ان منصوبوں میں صحت، تعلیم، ترقی، روزگار کی تربیت، بدعنوانی کے خلاف اقدامات، سیکیورٹی امداد، اور دیگر کوششیں شامل ہیں۔ کینن نے تجویز کیا تھا کہ امریکا کو دیگر ممالک کے ساتھ اپنی طاقت کے بل پر معاملات طے کرنے چاہیئں، ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی پر عمل کرتے ہوئے دھونس اور دھمکی سے حکومت چلانا شروع کر دیا۔ انھوں نے کینیڈا، میکسیکو، چین اور یورپ کو تجارتی ٹیرف کے ڈنڈے سے دبانا شروع کیا، روس پر تو زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکے لیکن یوکرین کے صدر کو امریکا بلا کر پوری دنیا کے سامنے ذلیل کر دیا، ایران کے ساتھ بھی دھونس دھمکی والا سلسلہ جاری ہے۔ غرض انھوں نے دنیا سے ایک پریشان کن تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے اور اب ان کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کے جھگڑے کا حل تجارت کے ذریعے نکالنا چاہتے ہیں۔

اب ذرا میکسیکو، ایل سلواڈور، پاناما اور کیوبا جیسے لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ یاد کریں اور نوم چومسکی کے ان جملوں پر غور کریں، وہ لکھتے ہیں: ’’کینن نے 1950 میں لاطینی امریکی ممالک کے لیے جانے والے امریکی سفیروں سے کہا کہ ہمارا بڑا مقصد لاطینی امریکا کے خام مال کا تحفظ ہونا چاہیے، اس کے لیے ہمیں ایک خطرناک بدعت کا مقابلہ کرنا ہوگا جو لاطینی امریکا میں پھیل رہی ہے، یعنی یہ خیال کہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے براہ راست ذمہ دار ہے۔‘‘ کینن نے عوام کی فلاح و بہبود کے خیال کو خطرناک بدعت قرار دیا، اور اسے کمیونزم کہا۔ کینن نے اس بدعت کے شکار لوگوں کو دشمن اور غدار کہا، اور پولیس کے ذریعے ان سے طاقت کے ساتھ نمٹنے کی بے جھجھک تلقین کی۔ کینن نے نرم اور لبرل حکومت کے مقابلے میں ایک مضبوط رجیم کو بہتر قرار دیا۔

اس کتاب میں ایک باب ’’جمہوریتوں کے لیے امریکی وابستگی‘‘ بھی ہے۔ اس باب میں نوم چومسکی نے بہت تشویش ناک معاملے کی نقاب کشائی کی ہے۔ پالیسی سازوں نے ایک طرف امریکا کے بنائے ہوئے نئے عالمی نظام کے لیے تیسری دنیا میں پائی جانے والی قوم پرستی کو بنیادی خطرہ قرار دیا، اور یہ ہدف پیش کیا کہ ایسی کوئی حکومت اقتدار میں نہ آئے، دوسری طرف ’’اصلی جمہوریتوں‘‘ کو ایک مسئلہ قرار دیا گیا، کیوں کہ وہ اس بدعت کا شکار ہو جاتی ہیں کہ امریکی سرمایہ کاروں کی بجائے اپنی آبادی کی ضروریات کو ترجیح دینے لگتی ہیں۔ جب سرمایہ کاروں کے حقوق کو خطرہ ہوتا ہے، جمہوریت کو ختم کرنا پڑتا ہے؛ اگر یہ حقوق محفوظ ہیں، تو قاتل اور تشدد کرنے والے بالکل ٹھیک ہیں۔ صرف یہی، آج جب پاکستان کے حوالے سے پراکیسز کا بڑا شور ہے، نوم چومسکی نے اعتراف کیا ہے کہ ایل سلواڈور اور گوئٹے مالا میں امریکی دہشت گرد پراکسیز نے صرف قتل عام ہی نہیں کیا، بلکہ بچوں اور عورتوں پر سفاکانہ اور وحشیانہ تشدد کی بد ترین مثالیں بھی قائم کیں۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب موجودہ دنیا میں امریکی کردار کے ہر پہلو کو واضح کر کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ جسے ہر پڑے لکھے پاکستانی کو پڑھنا چاہیے۔

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں