منگل, اپریل 1, 2025
اشتہار

ملک بدری کے احکامات سے متعلق ٹرمپ کا سپریم کورٹ سے بڑا مطالبہ

اشتہار

حیرت انگیز

ٹرمپ نے امریکی سپریم کورٹ سے جنگی حالات کے قانون کے تحت ملک بدری پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ کر دیا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے 18ویں صدی کے جنگ کے وقت کے قانون کے تحت وینزویلا کے تارکین وطن کو ایل سلواڈور واپس بھیجنے کی اجازت مانگی ہے جبکہ عدالتی لڑائی جاری ہے۔

محکمہ انصاف نے عدالت سے واشنگٹن، ڈی سی میں مقیم امریکی ڈسٹرکٹ جج جیمز بوسبرگ کے 15 مارچ کے حکم کو اٹھانے کے لیے کہا ہے جس میں وینزویلا کے شہریوں کی سمری ہٹانے کے عمل کو عارضی طور پر روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ ٹرمپ کے ایلین اینیمیز ایکٹ کی درخواست کو قانونی چیلنج کرنے کے لیے ملک بدری کا جواز پیش کیا گیا ہے۔

18ویں صدی کا قانون تاریخی طور پر صرف جنگ کے وقت استعمال ہوتا رہا ہے۔

اس سے قبل بھی امریکا کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف حکم جاری کرنیوالے جج کا مواخذہ کرنے سے انکار کردیا۔

امریکی صدر کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ انکے خلاف حکم جاری کرنیوالے واشنگٹن ڈی سی ڈسٹرکٹ کورٹ کے چیف جج James E. Boasberg کا مواخذہ ہونا چاہئے۔

ٹرمپ انتظامیہ کو جج نے حکم دیا تھا کہ وہ حالت جنگ کے دور کی متنازعہ اتھارٹی استعمال کرکے وینزویلا کے گینگ اراکین کو اس وقت تک ڈیپورٹ نہ کریں جب تک کہ کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔

جج کا کہنا تھا کہ ڈیپورٹ کیے جانیوالے ایسے افراد کو لے جانے والے طیاروں کو واپس موڑنا چاہیے تاہم وائٹ ہاؤس نے اگلے روز کہا تھا کہ 137 افراد کو ملک بدر کردیا گیا ہے۔

امریکی صدر نے الزام لگایا ہے کہ جج Boasberg انتہائی دائیں بازو کے پاگل شخص ہیں اور ان ٹیڑھے دماغ کے ججوں میں سے ہیں جن کے سامنے انہیں پیش ہونا پڑا تھا، انکا ہرصورت مواخذہ ہونے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ امریکا میں ججوں کے مواخذہ کی کارروائی شاذونادر ہی کی جاتی ہے، امریکا میں 1804ء سے ابتک صرف 15ججوں کا مواخذہ کیا گیا ہے، آخری بار یہ اقدام 2010ء میں کیا گیا تھا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں

StatCounter - Free Web Tracker and Counter