غزہ میں جنگ بندی معاہدے کا کریڈٹ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لے لیا کہا کہ اگر میں دباؤ نہیں ڈالتا تو یہ ڈیل نہیں ہوتی۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نےکہا اگر ہم اس معاہدے میں شامل نہ ہوتے تو یہ معاہدہ کبھی نہ ہوتا، ہم نے صورتحال کا رخ بدلا، اور یہ کام تیزی سے کیا۔
انہوں نے کہا کہ بہتر ہے یہ سب میرے حلف اٹھانے سے پہلے ہوجائے، معاہدے کا کریڈٹ لینے پر ٹرمپ نے صدربائیڈن کو ناشکرا قرار دیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ صدر بائیڈن نے کچھ نہیں کیا، اگر ہم اس میں شامل نہ ہوئے تو یرغمالی کبھی بھی رہا نہیں ہوتا۔
غزہ میں جنگ بندی کب سے نافذ العمل ہوگی؟ قطری وزیراعظم نے بتا دیا
واضح رہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کیا اور انہوں نے معاہدے کو امریکی سفارت کاری کا نتیجہ قرار دیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدہ امریکی سفارت کاری اور محنت کا نتیجہ ہے، اب فریقین میں مستقل جنگ بندی کے لیے بات چیت ہوگی، انہوں نے مزید کہا تھا کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کا راستہ آسان نہیں تھا۔
کیا غزہ جنگ بندی ڈیل نیتن یاہو کی قبر میں آخری کیل ٹھونک دے گی؟ اسرائیل میں کیا بے چینی پھیلی ہے؟
واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کا بالآخر معاہدہ ہوگیا، 15 ماہ ایک ہفتے تک جاری جنگ میں غزہ پر 85 ہزار ٹن بارود برسایا گیا۔
17 جنوری بدھ کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں وزیر اعظم محمد بن عبد الرحمان بن جاسم الثانی نے غزہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ کروانے کے لیے قطر، مصر اور امریکا کی کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں۔
وزیر اعظم محمد بن عبد الرحمان بن جاسم الثانی نے کہا کہ جنگ بندی کا اطلاق 19 جنوری سے ہوگا، حماس اور اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے مراحل پر عمل درآمد کے حوالے سے کام جاری ہے۔
جنگ گزشتہ سال 7 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملہ کیا تھا، اس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1,200 تقریباً لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ حماس نے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا لیا اور انہیں غزہ لے گئے، جواب میں اسرائیل نے غزہ پر حملے شروع کیے جن میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔