واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدہ نہ کرنے کی صورت میں بمباری کی دھمکی کے بعد ایران کو براہ راست مذاکرات کی تجویز دے دی۔
قطری نیوز چینل الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں سے گفتگو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ براہ راست سفارت کاری کے امکان کے بارے میں پُر امید نظر آئے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے ایران امریکا سے براہ راست بات چیت کرنے کا خواہاں ہے۔ ’میرے خیال میں یہ بہتر ہے کہ ہم براہ راست بات چیت کریں، اگر آپ ثالثی کریں تو دوسرے فریق کو بہتر سمجھتے سکتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: ایران پر حملہ کیا گیا تو جوہری ہتھیاروں کے حصول کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا، تہران
گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں انہوں جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت کا مطالبہ کیا تھا جبکہ انہوں نے تہران کو حملوں کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔
تاہم ایران نے امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا وہ بالواسطہ سفارت کاری پر رضامند ہے۔
آیا یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایران نے واقعی اپنا مؤقف تبدیل کیا ہے یا ڈونلڈ ٹرمپ اس کے مؤقف کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔
چند روز قبل امریکی صدر نے این بی سی نیوز کے ساتھ ٹیلی فون پر انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکی اور ایرانی حکام اس حوالے سے آپس میں بات چیت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایران نے معاہدہ نہیں کیا تو بمباری ہوگی، اگر وہ معاہدہ نہیں کرتا تو میں اس پر ٹیرف بھی عائد کروں گا جیسا کہ میں نے چار سال پہلے بھی کیا تھا۔
روس کا مؤقف
بعدازاں، روس نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ اگر ایران کے جوہری ڈھانچے پر حملے کیے گئے تو یہ اس کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے روسی جریدے ’انٹرنیشنل افیئرز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ حقیقت میں دھمکیاں سنی جا رہی ہیں اور الٹی میٹم بھی سنے جا رہے ہیں، ہم اسے نامناسب سمجھتے ہیں اور مذمت بھی کرتے ہیں، روس اسے امریکا کیلیے ایران پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا ایک طریقہ سمجھتا ہے۔
سرگئی ریابکوف نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ تبصرے نے ایران کے حوالے سے صورتحال کو پیچیدہ کرنے کا کام کیا، اس کے نتائج اور خاص طور پر اگر حملے جوہری انفراسٹرکچر پر ہوتے ہیں تو پورے خطے کیلیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی وقت ہے اور ٹرین روانہ نہیں ہوئی، ہمیں کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کرنے کیلیے اپنی کوششوں کو دوگنا کرنے کی ضرورت ہے۔