جمعرات, دسمبر 26, 2024
اشتہار

’’ٹرمپ کی کامیابی اور پاکستان‘‘، بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ

اشتہار

حیرت انگیز

ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے دوسری بار صدر منتخب ہوگئے، لیکن اس کے بعد پاکستان میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، وہ سمجھ سے باہر ہے۔ ایک جانب لوگ بھنگڑے ڈالنے کے لیے بے قرار نظر آتے ہیں، تو دوسری جانب ناصر کاظمی کے شعر ’’ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر، اداسی بال کھولے سو رہی ہے‘‘ جیسی صورتحال دکھائی دیتی ہے، کم از کم دونوں اطراف کے بیانات سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے۔

امریکا دہائیوں سے دنیا کی واحد سپر پاور اور سب سے طاقتور ملک ہے اور اس کے صدارتی انتخاب پر دنیا کی نظریں لگی ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر ہمارے وزیراعظم شہباز شریف سمیت دنیا بھر کے سربراہان مملکت نے اپنے اپنے انداز میں ڈونلڈ ٹرمپ کے نام تہنیتی پیغام بھیجے، لیکن وہاں کے عوام کا عمومی رویہ معمول کے مطابق رہا۔ دوسری جانب پاکستان میں، جہاں پہلے ہی یہ مفروضہ گھڑ لیا گیا تھا کہ ٹرمپ آئے گا تو عمران خان رہا ہو جائے گا یا موجودہ حکومت کے لیے مشکل ہو جائے گی، اس مفروضے پر مزید تبصرے اور تجزیے شروع ہو گئے ہیں۔

اگر یہ بات صرف چائے کے ہوٹلوں، ڈرائنگ روم کی نجی محفلوں یا کارکنوں تک رہتی تب بھی بہتر تھا، لیکن صرف سیاست سے نابلد اور جذبات کی رو میں بہہ جانے والے عوام ہی نہیں، بلکہ معقول سیاسی حلقوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں بھی ٹرمپ کی کامیابی کو پی ٹی آئی کی صورتحال سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم نے امریکی الیکشن کو پاکستان کی موجودہ سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر خود کو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان میں تیرا چیف اور میرا چیف، تیرا جج اور میرا جج کے نعرے لگتے تھے اور اب صورتحال اتنی مضحکہ خیز ہو گئی ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی، تو کچھ بعید نہیں کہ جلد ہی ہم تیرا امریکی صدر اور میرا امریکی صدر کی گردان بھی سن اور دیکھ لیں۔

- Advertisement -

حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی خود کو آزاد ملک کا آزاد شہری کہتے ہیں اور اس حقیقت میں ذرہ برابر بھی شک نہیں۔ لیکن جس طرح امریکی الیکشن اور ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے بچکانہ بیانات سامنے آ رہے ہیں، وہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں نے اپنا سیاسی قبلہ امریکا کو ہی بنایا ہوا ہے یا دوسرے معنوں میں امریکا ہی مائی باپ ہے۔

ایک جانب پی ٹی آئی والے (رہنما اور کارکنان دونوں) ہیں، جو مبارکباد کے ساتھ ٹرمپ کو عمران خان کا اچھا دوست قرار دے رہے ہیں اور آس لگا رہے ہیں کہ ٹرمپ ان کی مصیبتوں کا ازالہ کرے گا۔ ہمدردی کی لہر کے ساتھ پاکستانیوں کی بڑی تعداد بھی اس خیال کی رو میں بہہ رہی ہے جب کہ سابق صدر پاکستان اور پی ٹی آئی رہنما عارف علوی نے تو ٹرمپ کو مبارکباد دینے کے ساتھ ایک خط بھی لکھ ڈالا جس میں عارف علوی نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آپ کی جیت نے موجودہ اور آنے والے آمروں پر کپکپی طاری کر دی ہے۔ آپ پاکستان کے اچھے دوست رہے ہیں اور جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں۔‘‘ (یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنی اتنخابی مہم میں کبھی بھی اور کہیں بھی عمران خان کی رہائی سے متعلق بات یا وعدہ نہیں کیا)۔ ویسے ہمارا ذاتی خیال ہے کہ خط میں لکھے گئے ان کے یہ الفاظ عارف علوی کے سابق منصب سے مطابقت نہیں رکھتے اور پاکستان کے موجودہ سیاسی تناظر میں یہ سابق صدر مملکت سے زیادہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن کے الفاظ جیسا وزن رکھتے ہیں۔ عارف علوی کو اس کا خیال رکھنا چاہیے تھا، کہ بڑا منصب لفظوں کے بھرم اور انتخاب کا متقاضی ہوتا ہے۔

دوسری جانب حکومت کے ارسطو دماغ ہیں، جو بلاوجہ ٹرمپ اور عمران خان کی رہائی کا شوشا چھوڑ کر جلتی پر تیل ڈال کر اپنے لیے ہی سیاسی مشکلات بڑھانے میں مصروف ہیں، کیونکہ اس قسم کے بیانات سے عمران بے شک رہا ہو یا نہ ہو، لیکن عوام میں ن لیگ اور حکومت کی گرتی مقبولیت کو مزید عوامی نفرت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ویسے تو کوئی وزیر پیچھے نہیں، لیکن رانا ثنا اللہ نے تو حد ہی کردی اور کہا کہ امریکا چاہے تو عافیہ صدیقی کے بدلے عمران خان کو لے سکتا ہے۔ یہ بچکانہ بیان صورتحال تو تبدیل نہیں، لیکن امریکا میں قید عافیہ صدیقی کے اہلخانہ کے زخموں پر نمک کا کام ضرور کر سکتا ہے۔ جس طرح بڑا طاقتور جانور جنگل میں آجائے، تو وہاں شور بپا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کی دوبارہ وائٹ ہاؤس آمد پر سوشل میڈیا پر بھی شورمچ گیا ہے کہ بالخصوص عمران خان کے چاہنے والے ایسے ایسے کمنٹس کر رہے ہیں کہ جیسے آنے والے دنوں میں عمران خان اور ٹرمپ ہاتھوں میں ہاتھ لے کر یہ گانا گاتے نظر آئیں گے کہ ’’یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے، توڑیں گے دم اگر ساتھ تیرا نہ چھوڑیں گے۔‘‘ دوسری جانب مخالف سوچ والے یہ کہہ کر پی ٹی آئی والوں سے استہزا کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کامیاب ہو گئے اب وہ پاکستان آکر عمران کا اڈیالہ جیل سے آزادی دلائیں گے اور پھر عمران خان پاکستان کو امریکا سے آزادی دلائے گا، یا پھر امریکا نے اقتدار سے نکالا تھا اور اب کیا امریکا ہی جیل سے نکالے گا۔ خیر اس بات میں تو وزن ہے، اگر پی ٹی آئی والے عمران خان کی رہائی کے لیے ٹرمپ کی طرف دیکھ رہے ہیں تو پھر ان کا حقیقی آزادی کا نعرہ کہاں گیا؟ بہتر یہ ہے کہ دونوں جانب سے ٹرمپ کا نام لے کر خود کو متنازع بنانے کے بجائے عمران خان کے حوالے سے اپنی عدالتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

اسی تناظر میں سینیٹر مشاہد حسین سید کا کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے جس میں انہیں عمران خان کی رہائی کے تناظر میں کہا تھا کہ اگر 5 نومبر کو ٹرمپ صدر منتخب ہوگئے اور پھر وہاں سے کال آئے تو اس کال سے قبل ہی پاکستانی حکومت اپنا فیصلہ کر لے۔ لگتا ہے کہ پاکستان کے کرتا دھرتاؤں نے ان کی اس بات کو سنجیدگی سے لیا اور 5 نومبر سے قبل ہی سروسز چیفس کی مدت (آرمی چیف کی مدت ملازمت) تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر لی جس کو مخالفین حکومت کے اپنے پانچ سال پکے کرنے کا بندوبست قرار دے رہے ہیں جب کہ اس کے ساتھ ہی جسٹس امین الدین کی آئینی بنچ کے سربراہ کی طور پر تقرری کرکے اور قانون منظور کرانے کے بعد ججز کی تعداد بڑھا کر پیشگی بندوبست کر لیا ہے۔
امیدیں لگانے والوں کے لیے عرض ہے کہ پاکستانیوں کے لیے نہ ٹرمپ ناآشنا ہے اور نہ ہی پاکستان ٹرمپ کے لیے اجنبی ہے۔ وہ پہلی بار نہیں بلکہ دوسری بار صدر منتخب ہوئے ہیں اور ان کا پہلا دور مختلف تنازعات کے باعث خبروں میں رہا ہے اور ایسے تنازعات جس کی نہ صرف ان کے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں تنقید کی گئی اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد جن امور کو انجام دیں گے ان میں عمران خان کی رہائی کا دور، دور تک ذکر نہیں ہوگا۔

ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں امریکا فرسٹ کا نعرہ دیا، جو بطور سربراہ مملکت غلط نہیں اور اسی نے ان کے متنازع ہونے کی بنیاد رکھی، کیونکہ وہ صرف امریکا نہیں بلکہ سپر پاور ملک کے صدر ہیں۔ جس کی طے کردہ پالیسیوں سے دنیا کے سیاسی ومعاشی رنگ بدلتے ہیں۔ اس لیے اب انہیں اپنی دوسری اننگ سوچ سمجھ کر کھیلنی ہوگی۔ اس وقت دنیا کے کئی خطوں بالخصوص امریکا کے لے پالک اسرائیل کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ مظلوم فلسطینی تو کئی دہائیوں سے یہ مظالم سہہ رہے ہیں، جب کہ لبنان میں بھی جنگ کا محاذ کھلا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایران اور اسرائیل میں بھی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ یہ دنیا کو تباہ کرنے والی چنگاریاں ہیں، جس پر پھونکیں مارنے کے بجائے بجھانے کی ضرورت ہے ورنہ اگر یہ آگ بھڑکی تو تیسری جنگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس کرہ ارض کو تباہ کر دے گی اور شاید یہ دنیا کی آخری جنگ ہوگی۔

ٹرمپ کا اپنی وکٹری اسپیچ میں نئی جنگ نہ چھیڑنے اور جاری جنگوں کو ختم کرانے کی بات کرنا خوش آئند ہے، لیکن اس کو عملی جامہ کب پہنایا جاتا ہے یہ دیکھنا ہوگا۔ امریکا کا ماضی دیکھتے ہوئے یہ صرف سیاسی بیان لگتا ہے، کیونکہ اگر ٹرمپ اپنے اس بیان کو عملی جامہ پہنانے نکلے تو اس کے لیے امریکا کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں جو انتہائی مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن دکھائی دیتی ہیں۔ کیونکہ امریکا کی پرو اسرائیل پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دنیائے اسلام تو اسرائیل کو امریکا کی ناجائز اولاد کہتی ہے گی اور اپنے لے پالک اسرائیل کو لگام دینا ہوگی کیونکہ دنیا میں جنگ کے فساد کی سب سے بڑی وجہ بھی وہی ہے۔

Comments

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں