طفیل نیازی کا نام اپنے فن اور طرزِ گائیکی کے ساتھ اُن لوک گیتوں کے طفیل آج بھی زندہ ہے جو قدیم روایات اور ثقافت بیان کرتے ہیں، جن کے میٹھے بول سماعتوں کو اپنا اسیر بنا لیتے ہیں۔ طفیل نیازی نے دنیائے فانی کو 1990ء میں آج ہی کے خیر باد کہہ دیا تھا۔ آج پاکستان کے اس معروف لوک گلوکار کی برسی ہے۔
جب لاہور ٹیلی وژن سینٹر پر نشریات کا آغاز ہوا تو طفیل نیازی وہ پہلے لوک گلوکار تھے جنھیں اسکرین پر دیکھا گیا۔ لاہور مرکز سے موسیقی کا پہلا پروگرام ذکا درّانی نے پیش کیا تھا جس میں طفیل نیازی نے گیت ’’لائی بے قدراں نال یاری، تے ٹُٹ گئی تڑک کر کے‘‘ پیش کیا اور یہ گیت مقبول ہوا۔ نیازی صاحب نے 70 کی دہائی کے آغاز میں پی ٹی وی کے مشہور پروگرام لوک تماشا میں بطور موسیقار اور گلوکار بھی نظر آئے۔ طفیل نیازی کے مشہور گیت ’’ساڈا چڑیاں دا چنبھا‘‘، ’’میں نئیں جانا کھیڑیاں دے نال‘‘، ’’دُور جا کے سجناں پیارے یاد آن گے‘‘، ’’سجناں وچھوڑا تیرا جند نہ سہار دی‘‘ آج بھی سامعین کو مسحور کر دیتے ہیں۔
طفیل نیازی 1926ء میں ضلع جالندھر کے گاؤں مڈیراں میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ملتان آگئے اور پھر لاہور میں اقامت اختیار کی۔ ممتاز مفتی نے تقسیمِ ہند کے بعد طفیل نیازی کی پاکستان ہجرت اور یہاں ان کی زندگی اور فن کے بارے میں لکھا ہے:’’پاکستان میں اسے ملتان لے جایا گیا۔ وہ علاقہ نہ رہا، عزیز اقارب نہ رہے، پروانے نہ رہے۔ وہ ایک بیگانے شہر میں اجنبی کی حیثیت سے آ پڑا۔ جوں توں کر کے اُسے سر چھپانے کے لیے ایک مکان تو مل گیا لیکن گزارے کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ آخر زِچ ہو کر اُس نے ملتان میں حلوائی کی دکان کھول لی اور دودھ دہی اور مٹھائی بیچ کر گزارہ کرنے لگا۔ چند ایک ماہ بعد ملتان کا ایک پولیس افسر طفیل کی دکان پر آنکلا۔ وہ طفیل کا پرانا فین تھا۔ اس نے طفیل کو پہچان لیا۔ بولا ’’طفیل دکان داری کر رہے ہو۔ نہیں، یہ نہیں ہوگا۔ بھئی اپنا کام کیوں نہیں کرتے۔ طفیل نے کہا اپنا کام کیسے کروں؟ نہ ساز ہے نہ ساتھی۔ پولیس افسر نے مال خانے سے اسے ساز دلا دیے اور اس نے گھوم پھر کر چند ساتھی تلاش کرلیے۔ اس کے بعد پولیس افسر نے ایک سنگیت محفل کا انتظام کیا اور طفیل کو شہر کے لوگوں سے متعارف کرایا۔ یوں طفیل کی سنگیت پارٹی پھر سے وجود میں آ گئی اور ملتان کے گرد و نواح میں اس کی شہرت پھیلنے لگی۔
طفیل نیازی کو شروع ہی سے لوک موسیقی اور صوفیانہ کلام میں دل چسپی تھی، ان کا تعلق پکھاوج بجانے کے ماہر خاندان سے تھا۔ طفیل صاحب نے آٹھ سال ہی کی عمر سے گانا شروع کردیا تھا، موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد حاجی رحیم بخش سے حاصل کی۔ بعد میں کئی مقامی سنگیت کاروں کے ساتھ رہے، ان سے سیکھا اور اس فن میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ان کے بارے میں معروف ناول نگار اور صحافی انور سِن رائے لکھتے ہیں، ‘طفیل نیازی یوں تو ایک لوک گلوکار کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن انہیں کلاسیکی موسیقی پر جو دسترس تھی اس کے ہم سر بھی کم ہی ہیں۔ طفیل نیازی نے بہت کم جگہوں پر اپنے ہی گانوں کی وہ بندشیں گائی ہیں جو مقبول عام انداز کی کہلائی جا سکتی ہیں۔’
پھر طفیل نیازی نے نوٹنکیوں میں جانا شروع کیا اور مختلف تقاریب میں گانے بجانے سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ کسی طرح ٹیلی وژن تک بھی رسائی ہو گئی۔ طفیل صاحب نے سسی پنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال جیسے لوک کہانیوں پر مبنی ڈراموں میں مرکزی کردار بھی نبھائے۔ لیکن ان کا اصل میدان گلوکاری تھا۔ اس میدان میں مقامی سطح پر حوصلہ افزائی نے طفیل نیازی میں مزید آگے بڑھنے پر اکسایا اور وہ ایک سنگیت گروپ تشکیل دینے میں کام یاب ہوگئے۔
70ء کی دہائی میں طفیل نیازی لوک ورثہ کے ادارے سے بھی وابستہ رہے اور اسی زمانے میں چند گانوں کے لیے موسیقی بھی ترتیب دی۔ 1983ء میں حکومتِ پاکستان نے اس لوک فن کار کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
لوک گلوکار طفیل نیازی اسلام آباد کے قبرستان میں مدفون ہیں۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل انھیں فالج ہوا تھا۔ کلاسیکی موسیقی اور لوک گائیکی کے اس بڑے نام کے دو بیٹے جاوید نیازی اور بابر نیازی بھی اسی فن کی بدولت پاکستان اور دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔