تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

صدر کیخلاف توہین آمیز بیان پر ترک خاتون صحافی کو قید کی سزا

استنبول : ترکی میں صدر کی توہین کرنا آئینی طور پر جرم قرار دیا جاتا  ہے، توہین آمیز جملوں پر  خاتون صحافی کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔

ترکی کی معروف خاتون  ترک صحافی صدف کباس نے ایک نجی ٹیلی وژن سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک بہت مشہور کہاوت ہے کہ تاج والا سر سمجھ دار ہو جاتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے۔ جب بیل محل میں داخل ہوتا ہے تو وہ بادشاہ نہیں بن جاتا بلکہ محل ایک کھلیان بن جاتا ہے۔ بعد ازاں انہوں نے بعد میں یہ جملہ ٹویٹ بھی کیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 52سالہ خاتون صحافی کو اس بات پر حکومتی اہلکاروں اور حکومت کے حامی شخصیات نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ترک وزیر انصاف عبدالحمیت گل نے کہا کہ کباس کو اپنے غیرقانونی الفاظ کے لیے وہی سزا ملے گی جس کی وہ حقدار ہیں۔

ترکی کے صدارتی ڈائریکٹر برائے کمیونیکشن فرحتین التون نے ٹویٹ کیا کہ صدارتی دفتر ہمارے ملک کا اعزاز ہے۔ میں اپنے صدر اور ان کے دفتر کے خلاف کی جانے والی اس توہین کی شدید مذمت کرتا ہوں۔

توہین آمیز جملوں پر ترک خواتین کے خلاف قانونی کاروائی

گزشتہ ہفتے کی نصف شب سکیورٹی فورسز نے کباس کو صدر رجب طیب ایردوآن کی توہین کرنے پر حراست میں لے لیا۔

ترک پینل کوڈ کے آرٹیکل 299 کے تحت ملکی صدر کی توہین پر ایک سے چار سال قید کی سزا مختص ہے۔ یاد رہے کہ ترکی میں 2014 میں ایردوآن کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے ہزاروں افراد کو ‘صدر کی توہین‘ کے جرم میں سزا سنائی جا چکی ہے۔

صدر کی توہین پر مقدمہ

ترکی کی وزارت انصاف کے اعدادوشمار کے مطابق، ملکی صدر کی توہین کے مرتکب ہونے والے تقریباً 170 افراد کے خلاف تحقیقات شروع کی گئی ہیں اور گزشتہ آٹھ سالوں میں اس ضمن میں 35,507 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

یہ قانون نہ صرف صحافیوں، فنکاروں اور ماہرین تعلیم بلکہ عام شہریوں کے خلاف بھی استعمال ہو رہا ہے، دوسری جانب انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کے مطابق یہ آرٹیکل آزادی اظہار پر ایک سنگین حملہ ہے۔

Comments

- Advertisement -