ہم سب ہی نے بچپن میں خرگوش اور کچھوے کی کہانی سنی ہے جس میں کچھوا اپنی مستقل مزاجی کے باعث خرگوش سے ریس جیت جاتا ہے اور خرگوش پیچھے رہ جاتا ہے۔ مگر یہ کہانی اب پرانی ہوچکی ہے۔ اس کہانی کو اگر آج کے دور میں ڈھالا جائے تو اس بار کچھوا لازماً یہ ریس ہار جائے گا، کیونکہ اس بار اس کا مقابلہ اپنے جیسے کسی جنگلی جانور سے نہیں بلکہ چالاک و عیار انسان سے ہوگا، جو پیسوں کی خاطر اسے دنیا سے ختم کرنے پر تلے ہیں۔
شاید کبھی کچھوا یہ ریس جیت جائے، کیونکہ بقا کا مقصد بہرحال سب سے عظیم ہوتا ہے اور جان بچانے کا مقصد کسی کو بھی اس کی استعداد سے بڑھ کر جدوجہد کرنے پر مجبور کرتا ہے، لیکن فی الحال جو منظر نامہ ہے اس میں کچھوے کو شکست کا سامنا ہے، اور اس کے مقابل انسان فتح یاب ہورہا ہے۔
پاکستان ایک زرخیز ملک؟
پاکستان جغرافیہ کے لحاظ سے ایک متنوع ملک ہے۔ اپنے جغرافیہ اور موسمی حالات کی بنا پر پاکستان 11 جغرافیائی، 10 زرعی ماحولیاتی اور 9 بڑے ماحولیاتی زونز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اس کے ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام میں جانداروں کی وسیع انواع موجود ہیں۔ یہاں ممالیہ کی 174 انواع، پرندوں کی 666 انواع، 177 رینگنے والے جانداروں کی اقسام اور جل تھلیوں (یا ایمفی بینس) کی 22 ایسی اقسام شامل ہیں جو پانی اور خشکی دونوں پر چلتی ہیں۔
مزید پڑھیں: گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ
لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے خزانے کی صحیح سے حفاطت نہیں کر پارہے۔ جانداروں کی کچھ اقسام معدوم ہوچکی ہیں، کچھ خطرے کا شکار بین الاقوامی جانداروں کی فہرست میں شامل ہیں اور کئی انواع قومی سطح پر خطرات سے دو چار ہیں۔
گذشتہ 4 سو سال میں پاکستان (برصغیر) کے علاقے سے کم سے کم 4 ممالیہ اقسام کے بارے میں تصدیق کی جا چکی ہے کہ وہ معدوم ہوگئی ہیں۔ ان میں ٹائیگر (پنتھرو ٹائیگر)، دلدلی ہرن اور شیر شامل ہیں۔ چیتا سندھ کے علاقوں سےمعدوم ہوچکا ہے۔ مزید 2 اقسام حالیہ عشروں میں ممکنہ طور پر معدوم ہو رہی ہیں۔ ایشیاٹک چیتا اور کالی بطخ کو مقامی طور پر ختم ہوجانے والی اقسام کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ ایشیاٹک جنگلی گدھے کے پاکستان میں معدوم ہوجانے کا خطرہ موجود ہے۔
ہمارے ملک میں معدومی کے خطرے کا شکار ایسا ہی ایک جاندار کچھوا بھی ہے، اور شاید لوگوں کو علم نہیں کہ یہ جاندار ہمارے لیے کس قدر فائدہ مند ہیں۔
معدومی کے خطرے سے دو چار ۔ کچھوا
پاکستان میں کچھوے کی میٹھے پانی کی 8 انواع ہیں جبکہ 3 سمندری (نمکین) پانی میں پائی جاتی ہیں۔ جس طرح گدھ کو فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے جو زمین سے مردہ اجسام کو کھا کر زمین کو صاف رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے، اسی طرح کچھوا یہی کام پانی میں سرانجام دیتا ہے۔
کچھوے پانی میں موجود مردہ اجسام کو کھاتے ہیں اور پانی کو آلودگی سے محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اب کچھوؤں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے 10 سے 15 سال میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
اس بارے میں سندھ وائلڈ لائف کے کچھوؤں کے حفاظتی یونٹ کے انچارج عدنان حمید خان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق یہ بات اب تصدیق شدہ ہے کہ کراچی میں اچانک پیدا ہونے والا نیگلریا وائرس کچھوؤں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوا۔ نیگلیریا وائرس میٹھے پانی جیسے دریاؤں، جھیل اور پینے کے پانی کے ذخائر میں پیدا ہوتا ہے اور یہاں کا محافظ یعنی میٹھے پانی کا کچھوا اپنی بقا کے مسئلہ سے دو چار ہے۔
کچھوے اکثر ان فصلوں میں بھی پائے جاتے ہیں، یا لا کر چھوڑے جاتے ہیں جہاں پانی زیادہ ہوتا ہے جیسے چاول کی فصل۔ وہاں بھی کچھوے پانی کو صاف رکھتے ہیں اور فصل کو آبی خطرات سے بچاتے ہیں۔
کچھوؤں کو لاحق اصل خطرہ ۔ اسمگلنگ
پاکستان میں کچھوؤں کی اسمگلنگ ایک عام بات بن چکی ہے۔ اس حوالے سے کئی قوانین منظور کیے جاچکے ہیں اور اب ان پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے چنانچہ کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے کئی واقعات منظر عام پر آئے۔
عدنان حمید کے مطابق اسمگل کیے جانے والے کچھوؤں کی پہلی کھیپ 1998 میں کراچی ائیرپورٹ سے پکڑی گئی۔ وہ اس وقت کراچی ائیر پورٹ پر کام کرتے تھے۔
سنہ 2005 میں کراچی کی بندرگاہ پر 3650 کلو گرام کچھوے کا گوشت ضبط گیا جو ملزمان کے مطابق بھینسوں کا گوشت تھا۔ یہ گوشت ویتنام اسمگل کیا جارہا تھا۔
سنہ 2007 میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی پر کچھوے کے جسم کے خشک کیے ہوئے 700 کلو گرام حصے چین لے جاتے ہوئے ضبط کیے گئے۔ اسے مچھلی کی خشک جلد بتائی جارہی تھی۔ 2007 ہی میں پشاور سے اسی طرح 300 کلو گرام کچھوے کے جسم کا خشک کیا ہوا حصہ پکڑا گیا۔
اس کے بعد 2008 میں بھی اتنی ہی مقدار سے لاہور سے بھی کچھوے کا گوشت اسمگل ہوتا ہوا پکڑا گیا۔سنہ 2015 میں 5 کھیپوں سے 1,345 زندہ کچھوے پکڑے گئے جو مختلف مشرقی ایشیائی ممالک کی جانب اسمگل کیے جارہے تھے جبکہ 1.9 ٹن ان کے جسم کے مختلف حصے جیسے گوشت ہڈیاں وغیرہ پکڑی گئیں۔
اپریل 2015 میں 200 سے زائد میٹھے پانی کے زندہ کچھوے چین کی سرحد پر اسمگل ہوتے ہوئے پکڑے گئے، جنہیں بعد ازاں چین نے ایک خصوصی تقریب میں پاکستان کے حوالے کیا تھا۔
اس کے چند روز بعد ہی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمنل پر 4,243 مردہ کچھوے پکڑے گئے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اسمگلروں کے پاس میرین فشریز ڈپارٹمنٹ کا سرٹیفکیٹ موجود تھا کہ یہ کچھوے نہیں مچھلی ہیں۔ ان پکڑے جانے والے 4 ہزار سے زائد کچھوؤں کی بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں قیمت 61 کروڑ بنتی ہے۔
فروری 2016 میں کراچی ایئرپورٹ کے کسٹم حکام نے میٹھے پانی کے کالے دھبے والے 220 کچھوؤں کی غیر قانونی اسمگلنگ ناکام بنائی اور یہ کچھوے سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے حوالے کردیے۔
مارچ میں کراچی کرائم برانچ پولیس نے ڈالمیا شانتی نگر میں ایک گھر پر چھاپہ مار کر اسمگل کے لیے جانے والے نایاب نسل کے کچھوے برآمد کرلیے۔ واقعے میں ملزمان فرار ہوگئے۔
اسمگلنگ کی وجہ کیا ہے؟
کچھوے کے گوشت کی بین الاقوامی مارکیٹ میں بہت مانگ ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کے مطابق اس کے گوشت کو کھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے انڈوں کے خول سے زیورات اور آرائشی اشیا بنائی جاتی ہیں۔ اس کے جسم کے مختلف حصے شہوت بڑھانے والی دواؤں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
اس بارے میں عدنان حمید نے بتایا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک کچھوے کی قیمت 1500 ڈالر ہے۔ مقامی طور پر جب خرید و فروخت کی جاتی ہے تو ایک کچھوا 15 ڈالر میں بکتا ہے۔ 15 ڈالر کی خریداری، اور تمام شامل حکام کو ان کا ’حصہ‘ دینے میں 20 سے 25 ہزار روپے لگتے ہیں۔ یہ قیمت آگے جا کر کئی گنا اضافے سے وصول ہوجاتی ہے چنانچہ شارٹ کٹ کے متلاشی افراد کے لیے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ
انہوں نے بتایا کہ کچھوے کے گوشت کی بیرون ملک 340 ڈالر فی کلو میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔ جو لوگ اس میں حصے دار ہیں وہ چند سالوں میں بڑی بڑی لینڈ کروزرز اور وسیع و عریض بنگلوں کے مالک بن گئے۔
ان کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت میں نیپال، ہانگ کانگ، چین، انڈونیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا، ویتنام وغیرہ سرفہرست ہیں۔
عدنان حمید کے مطابق پنجاب میں وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ اتنا با اثر نہیں چنانچہ اکثر پنجاب خاص طور پر تونسہ سے کچھؤے بآسانی پورے ملک میں اور بیرون ملک اسمگل ہوتے ہیں۔
قوانین کیا ہیں؟
پاکستان میں 1972 سے 1974 کے دوران ایکٹ برائے تحفظ جنگلی حیات سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نافذ کیے گئے جس کے تحت جنگلی حیات کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈیننس 1972 کے سیکشن (2) 12 کے مطابق کچھووں یا دیگر جنگلی جانوروں کی تجارت پر مکمل پابندی ہے۔ خلاف ورزی پر ایک یا دو سال کی سزا بمعہ جرمانہ ہے۔
پاکستان نے خطرے میں مبتلا انواع کی بین الاقوامی تجارت کے کنونشن ’سائٹس‘ پر 1975 میں دستخط کیے تھے جس کے تحت ان کچھوؤں یا ان سے متعلق پیداواری اشیا کی تجارت اور برآمد پر پابندی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق اسمگلنگ کے دوران ضبط کی گئی جنگلی اور آبی حیات کو ان کے اپنے ہی علاقوں میں چھوڑنا لازمی ہے۔
عدنان حمید کے مطابق غیر قانونی طور پر کچھوؤں کو رکھنے کا جرمانہ 80 ہزار روپے ہے۔ اگر 200 کچھوے پکڑے گئے تو ہر کچھوے کا الگ 80 ہزار ہرجانہ وصول کیا جائے گا۔
دوسری جانب اپریل 2015 میں سندھ ہائیکورٹ نے بھی جنگلی حیات اور کچھوؤں کی اسمگلنگ کے حوالے سے انتہائی اہم فیصلہ دیا اور واضح طور پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ذمے دار ٹہرا کر کچھوؤں کی اسمگلنگ میں ملوث ملزمان کے خلاف قرار واقعی اقدامات کا حکم دیا۔
سندھ ہائیکورٹ نے اس فیصلے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ صاف ستھرے ماحول میں زندگی گزارنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ایک مکمل ماحول انسان، جنگلات اور جنگلی حیات کے بقائے باہم سے وجود میں آتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ
فاضل بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ کچھووں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کسٹم ایکٹ 1969 کے تحت کارروائی کی جائے۔ ان ملزمان کے خلاف چاہے وہ عام فرد ہوں یا سرکاری اہلکار و افسران، تحقیقات کر کے فوجداری مقدمات چلائے جائیں اور سائٹس معاہدے پر مکمل عملدر آمد کیا جائے۔
اس سلسلے میں سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی جس نے کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے پہلی بار کچھوؤں کے تحفظ کے قوانین برائے 2014 نہ صرف تیار کیے بلکہ انہیں صوبے میں نافذ کر کے دیگر صوبوں سے سبقت حاصل کرلی۔
اگرچہ اب بھی پاکستان میں سائٹس معاہدے پر سختی سے عمل نہیں ہو رہا تاہم اس پابندی سے خطرے سے دو چار انواع کی برآمد پر تھوڑا بہت اثر ضرور پڑا ہے اور ملک میں حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے مثبت تبدیلی رونما ہورہی ہے۔
عدنان حمید نے مزید گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وائلڈ لائف سے متعلق کیسوں کی سماعت میں جنگلی حیات کے فوائد، اس کی معدومی سے ہونے والے خطرات، اور اس کے متعلق قوانین کے بارے میں ججوں کو سمجھانا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے جج سرمد عثمان جلالی خود بھی شکاری تھے اور جنگلی حیات کے اہمیت کے بارے میں آگہی رکھتے ہیں چنانچہ وہ مؤثر فیصلے دیا کرتے تھے۔
عدنان حمید کے مطابق سخت قوانین کے باعث اب کسٹم حکام نے بھی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے جنگلی حیات کی اسمگلنگ کے واقعات کی اطلاع دینی شروع کی ہے تاہم اب بھی کسٹم حکام اس کام میں ملوث ہیں۔
اسمگلنگ کے علاوہ مزید کیا خطرات درپیش ہیں؟
اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی 1200 کلو میٹر ہے جس میں سے بمشکل 50 سے 60 کلومیٹر کچھوؤں کی افزائش کے لیے موزوں ہے۔ یعنی ایک صوبے کی 300 کلو میٹر ساحلی پٹی میں سے صرف 15 سے 16 کلومیٹر میں کچھوے افزائش نسل کر سکتے ہیں۔
مگر اب ساحل پر ہونے والی تعمیرات کے باعث کچھوے اس سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ عدنان حمید کے مطابق ہاکس بے پر ایک ہٹ بننے سے 200 مادہ کچھوے انڈے دینے سے محروم ہوجاتی ہیں۔ تیزی سے ہوتی تعمیرات کے باعث کچھوؤں کی افزائش کی جگہ یعنی نیسٹنگ سائٹس کم ہو رہی ہیں۔ مناسب نیسٹنگ سائٹس نہ ہونے کی وجہ سے مادہ کچھوے غیر محفوط جگہوں پر انڈے دیتی ہیں جہاں وہ عموماً کتے بلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان بھی اس عمل میں خلل پیدا کردیتے ہیں۔
عدنان حمید نے بتایا کہ جولائی سے دسمبر کچھوؤں کے انڈوں دینے اور ان انڈوں سے بچے نکلنے کا موسم ہے۔ کلائمٹ چینج کی وجہ سے مون سون کے سیزن میں تبدیلی آئی ہے تو کچھووں کے نیسٹنگ سیزن میں بھی تبدیلی آئی۔
بعض اوقات سمندر میں موجود کچھوے کشتیوں سے بھی ٹکرا جاتے ہیں جس کے باعث وہ مر جاتے ہیں۔ کچھوے سمندر میں بچھائے جال میں بھی پھنس جاتے ہیں۔ یہ کچھوے جب سطح سمندر پر آتے ہیں تو بعض دفعہ مچھیرے انہیں جال سے چھڑا کر واپس سمندر میں ڈال دیتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ گاؤں والوں کی تفریح کا باعث بن جاتے ہیں اور یوں سمندر میں جانے سے قبل مر جاتے ہیں۔
اس بارے میں عدنان حمید نے بتایا کہ سمندر میں مچھلیوں کے شکار کے لیے بڑے بڑے جال بچھا دیے جاتے ہیں۔ کچھوؤں کو سطح سمندر پر کچھ دیر بعد آ کر سانس لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جال کی وجہ سے وہ اوپر نہیں آ پاتے اور یوں زیر آب موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟
سندھ کا محکمہ جنگلی حیات 1979 سے جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیموں ڈبلیو ڈبلیو ایف اور آئی یو سی این کے ساتھ مل کر کچھوؤں کے تحفظ کے لیے مختلف پروجیکٹس پر کام کرہا ہے۔ ان پروجیکٹس کے تحت اب تک 4 لاکھ کچھوؤں کے بچوں کو سمندر میں چھوڑا جاچکا ہے۔ ایک اور پروجیکٹ کے تحت کچھوؤں کے انڈوں کو لیبارٹری میں لے جایا جاتا ہے اور وہاں بحفاظت ان کی سکائی کی جاتی ہے۔
عدنان حمید کے مطابق 2014 سے اب تک 700 سے 800 زندہ کچھوؤں کو اسمگل ہونے سے روکا جا چکا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف اس ضمن میں ماہی گیروں اور مچھیروں کو تربیت اور کچھوؤں، ڈولفن اور دیگر سمندری حیات کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دے رہی ہے تاکہ ان کے جال میں پھنسنے کی صورت میں وہ ان جانداروں کو آزاد کردیں۔
عدنان حمید کے مطابق قانون پر عملدرآمد اور میڈیا کی بدولت آگہی کے سبب کچھوؤں کے لیے اب صورتحال خاصی بہتر ہے تاہم ان کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔