امریکی تاریخ میں ایک ایسی خاتون گزری ہیں جس کا نام ٹائیفائیڈ میری مشہور ہو گیا تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جہاں جاتی تھیں لوگ ٹائیفائیڈ بخار کا شکار ہو جاتے تھے۔
میری میلن ایک باورچن تھیں اور وہ آئرلینڈ سے ہجرت کر کے امریکا پہنچی تھیں، جہاں وہ گھروں میں کھانا پکانے کا کام کرتی رہیں، لیکن انھیں بہت اذیت ناک دن بھی دیکھنے پڑے جب انھیں قید تنہائی میں ڈالا گیا۔
ٹائیفائیڈ کو بھیڑ بھاڑ والے غریب اور پس ماندہ علاقے کی بیماری کہا جاتا ہے جہاں بنیادی سہولیات اور صاف صفائی کی کمی ہوتی ہے، چناں چہ جب 1906 میں نیویارک میں لانگ آئی لینڈ کے اویسٹر بے میں چھٹیاں مناتے ہوئے امیر کبیر خاندان کے 11 افراد میں سے 6 لوگ بیمار پڑے اور ان میں ٹائیفائیڈ کی تشخیص ہوئی تو لوگ حیران ہوئے۔
تحقیق کے دوران پتا چلا کہ اس کی وجہ وہ باورچن ہیں جو گھر میں ٹائیفائیڈ کی وبا سے کچھ ہفتے پہلے کہیں اور کام کر رہی تھیں، مزید تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ 1900 کے بعد سے 1907 تک میری میلن نے جن سات خاندانوں کے لیے کھانا پکایا تھا، ان کے ہاں ٹائیفائیڈ بخار کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور 22 افراد میں انفیکشن ہوا تھا جس میں سے ایک لڑکی کی موت ہو گئی تھی۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹانکا کے مطابق میری میلن 23 ستمبر 1869 کو آئرلینڈ کے قصبے ٹائرون کے گاؤں ککزٹاؤن میں پیدا ہوئیں، 1883 میں امریکا ہجرت کر گئیں اور اس کے بعد انھوں نے گھریلو ملازمہ کے طور پر اور اکثر باورچن کے طور پر اپنی زندگی گزاری۔ یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کب ٹائیفائیڈ پھیلانے والے بیکٹیریا (سالمونیلا ٹائفی) کی کیریئر بنیں لیکن 1900 سے 1907 تک نیویارک شہر اور لانگ آئی لینڈ کے گھرانوں میں جہاں جہاں میلن نے گھریلو خدمات انجام دیں وہاں تقریباً 2 درجن لوگ ٹائیفائیڈ بخار سے بیمار ہوئے۔
جب یہ پتا چلا بخار ان کی وجہ سے پھیل رہا تو مزید تحقیق کے بعد ڈاکٹروں نے پایا کہ وہ کبھی خود ٹائیفائڈ کا شکار نہیں ہوئی تھیں، لیکن وہ اس بیماری کے بیکٹریا کا کیریئر کس طرح تھیں یہ واضح نہیں ہو سکا۔ جراثیم چوں کہ کھانے پکانے کے دوران درجہ حرارت پر ہلاک ہو جاتے ہیں اس لیے معلوم یہ ہوا کہ بیکٹیریا ایک قسم کی آئس کریم سے پھیلتا تھا جس میں وہ کچے آڑو کاٹ کر ڈالتی تھیں۔
اس تحقیق کے بعد نیویارک سٹی محکمہ صحت نے 1907 میں میری میلن کو اپنی تحویل میں لے لیا اور انھیں برونکس کے ساحل سے دور ایک جزیرے پر 16 ایکڑ پر پھیلے ایک بنگلے کے اندر جبری قید میں رکھا، جہاں ان کے ساتھ صرف ایک شکاری کتّا تھا۔
میری میلن نے ایک پرائیویٹ لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا جو منفی نکلا، انھوں نے 1909 میں محکمہ صحت پر اپنی آزادی کے لیے مقدمہ دائر کر دیا لیکن نیویارک کی سپریم کورٹ نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔
1910 میں نئے ہیلتھ کمشنر ارنسٹ لیڈرل نے اس شرط پر کہ وہ دوبارہ کبھی باورچی کے طور پر کام نہیں کریں گی، میری میلن کو رہا کر دیا، لیکن انھوں نے نام بدل کر میری براؤن بن کر مین ہٹن کے میٹرنٹی اسپتال میں ملازمت کر لی، اور 1915 میں سپتال میں 25 ملازمین بیمار ہو گئے اور ان میں سے دو کی موت ہو گئی۔ یہاں سے اسپتال کے عملے نے انھیں ’ٹائیفائڈ میری‘ کا نام دے دیا۔
میری میلن کو دوبارہ گرفتار کر لیا گيا اور انھیں اسی جزیرے پر قید تنہائی میں بھیج دیا گیا جہاں اس سے پہلے انھیں رکھا گیا تھا، یوں انھوں نے زندگی کے آخری 23 سال اس جزیرے پر جبری تنہائی میں گزارے۔ وہ 11 نومبر 1938 یعنی اپنی موت تک صرف اپنے لیے کھانا پکاتی رہیں۔