گزشتہ چند دہائیوں کے اندر ترقی کی بلندیوں کو چھونے والے متحدہ عرب امارات نے پینے کے پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے ایک انوکھا اور اچھوتا طریقہ منتخب کیا ہے.
متحدہ عرب امارات کی جانب سے تازہ پانی حاصل کرنے کے لیے پیش کیے گئے دنیا کے سب سے عظیم منصوبے کے تحت براعظم انٹارکٹیکا سے برف کا بہت بڑا تودہ کھینچ کر یو اے ای لایا جائے گا۔
بادی النظر میں یہ ایک خام خیالی ہوسکتی ہے تاہم متحدہ عرب امارات کی حکومت اس مںصوبے پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ ہے۔
تودہ بندرگاہ فجیرہ لایا جائے گا
نیشنل ایڈوائزر بیورو لمیٹڈ کمپنی کے مطابق انٹار کٹیکا سے برف کا تودہ بحری جہاز کے ذریعے کھینچ کر متحدہ عرب امارات کی مشرقی ساحلی بندرگاہ فجیرہ لایا جائے گا جسے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پینے کے پانی میں تبدیل کیا جائے گا اور شہر بھر میں تقسیم کیا جائے گا۔
12ہزار کلومیٹر کا فیصلہ، ایک تہائی گلیشیئر پگھل جائے گا
اس بندرگاہ اور انٹارکٹیکا کے درمیان 12 ہزار 600 کلومیٹر طویل فاصلہ ہے، لایا گیا گلیشئر ایک تہائی کے قرب پگھل جائے گا تاہم دو تہائی حصہ قابل استعمال ہوگا۔
20 ارب گیلن پانی 10 لاکھ افراد کی 5سالہ ضرورت کے لیے کافی ہوگا
کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ محمد سلیمان نے گلف نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک اوسط برف کے تودے سے 20 ارب گیلن پانی حاصل کیا جا سکتا ہے جو کہ 10 لاکھ افراد کے لیے پانچ برس تک کافی رہے گا۔
برفانی تودے کی منتقلی اور پینے کے پانی میں تبدیلی سے متعلق ویڈیو خبر کے آخر میں ملاحظہ کریں
گلیشئر لانے سے بارشوں کا امکان بڑھتا ہے
انہوں نے مزید کہا کہ برفانی تودہ صرف پینے کے پانی کے حصول کا باعث نہیں بنے گا بلکہ وہ خطے میں موسمی تغیرات کا باعث بھی بنتے ہیں جن سے بارش برسنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 80 فیصد گلیشیئر زیر آب رہتے ہیں جس کے باعث انہیں پگھلنے میں وقت لگتا ہے جب کہ بالائے آب گلیشیئرکے حصہ سورج کی روشنی اور گرمی کی وجہ سے بخارات میں تبدیل ہو کر فضا کا حصہ بن جاتے ہیں اور جلد پگھل جاتے ہیں۔
سیاحت میں بھی اضافہ ہوگا
انہوں نے مزید کہا کہ ساحل پر تیرتے برفانی تودے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں جس سے سیاحت میں بھی اضافہ ہوگا اور سیاحوں کی بڑی تعداد متحدہ عرب امارات کا رخ کریں گے۔
پروجیکٹ 2018ء میں شروع ہوگا
کمپنی کے سربراہ کا پروجیکٹ کے آغاز کے حوالے سے کہنا تھا کہ برفانی تودے کو انٹارکٹیکا سے متحدہ عرب امارات کے ساحلی علاقے تک لانے اور پھر سے پینے کے پانی میں تبدیل کرنے کے پروجیکٹ کا آغاز 2018 کے اوائل میں کیا جائے گا۔
سمندری پانی کو میٹھا بنانے کا خرچ گلیشئر لانے سے زیادہ ہے
خیال رہے کہ دنیا بھر سے لوگوں کی بڑی تعداد ملازمت کے حصول کے لیے متحدہ عرب امارات کا رخ کرتی ہے جس کے باعث آبادی میں ہوشربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے جب کی ریگستانی علاقہ ہونے کی وجہ سے پینے کے پانی کی قلت پہلے ہی سر اٹھائے کھڑی ہے اور سمندری پانی کو پینے کے لائق بنانے میں اخراجات زیادہ ہوجاتے ہیں۔
قبل ازیں متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ محمد راشد المکتوم نے مریخ پر شہر آباد کرنے کا حیرت انگیزاعلان بھی کیا ہے تاہم مریخ پر آبادی کے منصوبے پر عمل درآمد ہم میں سے کسی کی بھی زندگی میں تو ممکن نہیں کئی نسلوں کے بعد اس منصوبے پر عمل کیا گیا تو الگ بات ہے۔